Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam قانون اتمام حجت پر کچھ اشکالات

  • قانون اتمام حجت پر کچھ اشکالات

    Posted by Muhammad Usama Habib on February 3, 2021 at 9:38 am

    پہلا ۔

    اگر کوئی ایمان کا طالب ہو تو اسے امان دی جائے تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے کیونکہ ان لوگوں کو اللہ کی باتوں کا علم نہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ابھی تو کئی لوگوں پر اتمام حجت ہوا ہی نہیں وہ اللہ کی باتوں کو جانتے ہی نہیں پھر وقت سے پہلے عذاب کیوں ؟ ہونا تو اس طرح چاہیے تھا کہ پہلے اتمام حجت کی تکمیل ہو جاتی ہے پھر عذاب آتا

    دوسرا۔

    اگر عذاب تھا تو براہ راست قتل کر دیا جاتا لیکن یہاں اسلام قبول کرنے کی ساتھ شرط رکھی گئی ہے یعنی ایک شخص پر تلوار مسلط کر دی جائے اور کہا جائے کہ اسلام قبول کرو یا قتل ہو جاؤ ظاہری بات ہے کہ وہ اسلام ہی کو قبول کرے گا کیا یہ جبر نہیں ہے کیا یہ لا اکراہ فی الدین کے اصول کے خلاف نہیں ہے کیا اسلام یہی چاہتا ہے کہ لوگ تلوار کے ڈر سے ایمان لے آئیں اور دل سے کافر ہیں اس کے نتیجے میں کئی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں لیکن وہ ظاہری طور پر ہی مسلمان ہوتے ہیں ان کے دل کافر ہی ہوتے ہیں جس کی عملی شکل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد فتنہ ارتداد کی صورت میں ملی اگر یہ واقعی اللہ کی دینونت کا ظہور تھا تو ان کو بھی سزا ملنی چاہیے تھی جن کے دل کافر تھے کیونکہ اگر کوئی مسلمان ظلم کے مارے کلمہ کفر کہدے تو وہ اللہ کے نزدیک مسلمان ہی رہتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو ظاہری طور پر ایمان لائے تھے لیکن دل کافر تھے ان کو بھی سزا ملنی چاہئے تھی کیونکہ آخرت میں دل کے مطابق فیصلے ہوں گے نہ کہ ظا ہر کے مطابق شاید کہ کہا گیا ہے کہ اس دینونت کا مکمل ظہور حضرت ابوبکر کے دور میں ہوا ہے لیکن اگر ہم تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے تب بھی کئی قبائل نے جبرا اسلام قبول کیا ہے مثلاً بنو اسد نے اس ڈر سے کہ ان کے بیوی بچوں کو قتل کر دیا جائے گا اسلام قبول کیا تھا تو یہ “کیسی دینونت ہے کہ جس میں ظاہر کے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں نہ کہ باطن کی بنیاد پر اور کیا اسلام یہی چاہتا ہے کہ لوگ دل سے کافر رہیں اور ظاہری طور پر ایمان لائیں”

    تیسرا ۔

    اس عذاب میں عورتوں کو کیوں نہیں قتل کیا گیا یہ سزا تو شرک کی بنا پر دی جا رہی ہے جو کہ مردوں اور عورتوں میں یکساں ہے تو پھر مردوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور عورتوں کو نہیں کیا جا رہا ہے

    چہارم۔

    مشرکین کو سزا دینے کا اعلان کیا گیا تو ان مشرکین کو سزا کیوں نہیں دی گئی جن سے معاہدہ ہوا تھا حالانکہ ان پر بھی اتمام حجت ہوئی تھی اور اگر یہ شرک کی بنیاد پر انہیں سزا دی گئی تھی تو معاہد اور غیر معاہد دونوں میں یہ چیز یکساں تھی تو دونوں کو عذاب ملنا چاہیے تھا

    پنجم۔

    ٹائٹس کے حملے میں وہ لوگ جو حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد ایمان لائے تھے تقریبا سارے ہی مارے گئے تھے یا غلام بنا لئے گئے تھے بہت ہی کم بچے تھے تو یہ کیسا عذاب ہے کہ ایمان والوں بھی اس میں مبتلا ہیں ہیں

    Dr. Irfan Shahzad replied 3 years, 10 months ago 4 Members · 16 Replies
  • 16 Replies
  • قانون اتمام حجت پر کچھ اشکالات

  • Faisal Haroon

    Moderator February 3, 2021 at 9:59 am

    Please see the following FAQ on itmam-e-hujjah. All of your questions are already answered there:

    Discussion 37972

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 3, 2021 at 12:01 pm

    یقین کیجئے کہ مجھے اپنے کسی سوال کا بھی جواب نہیں ملا ہے آپ سے درخواست ہے کہ میرے تمام سوالات کو اور سورہ توبہ کی ابتدائی آیات کو غور سے پڑھئے شاید کہ اس طرح آپ میرے اضتراب کو بخوبی سمجھ سکیں گے

    ان تمام سوالات کے جواب دے کر شکریہ کا موقع عطا فرمائیں

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 3, 2021 at 8:33 pm

    ان اشکالات کا جواب میری کتاب، “قانون اتمام حجت اور اس کے اطلاقات: جناب جاوید احمد غامدی کی توضیحات پر اعتراضات اور اشکالات کا جائزہ” ” میں تفصیل سے دیا گیا ہے۔ مختصرا عرض ہے:

    دینونت کو عذاب خدا نے کہا ہے۔ (9۔14) اس عذاب کا فیصلہ قومی سطح پر کیا گیا۔ قوموں کے ساتھ جب معاملہ قومی سطح پر ہوتا ہے افراد کو نہیں دیکھا جاتا۔ جیسے بنی اسرائیل پر قومی سطح پر لعنت کی گئی لیکن یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں بہت سے نیک اور دیانت دار لوگ بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس امکان کے ساتھ کہ کچھ لوگوں پر ان کی لا علمی یا قلت تدبر کی وجہ سے حجت تمام نہیں ہوئی، قومی سطح پر ان کا رویہ دینونت کے اظہار میں مانع نہیں ہوا۔

    فیصلہ ظاہر کی بنیاد پر کیا گیا یہ درست ہے۔ یہی معاملہ مشرکین سے پہلے منافقین کے ساتھ بھی جاری تھا۔ ان کے ظاہر کی وجہ سے انھیں مسلمانوں میں شامل اور ان جیسے حقوق دیے گئے تھے۔ خدا کا مقصود جزیرہ عرب میں دین کا غلبہ اور معاندین کا استیصال تھا۔ وہ ہو گیا تو منافقین اور مجبوری سے اسلام قبول کرنے والوں کو ان کے ظاہر کی وجہ سے رعایت مل گئی۔ اب ان کا معاملہ خدا کا سپرد ہے۔ انسانی ہاتھوں سے عذاب دیے جانے کی یہ محدودیت ہے۔

    عورتوں کو قتل نہ کرنا انتظامی مسئلہ تھا۔ معلوم تھا کہ یہ مردوں کے تابع ہوتی ہیں اس لیے امکان روشن تھا کہ اپنے مردوں کے قتل ہو جانے یا ان کے اسلام قبول کر لینے کے بعد وہ بھی مسلمان ہو جائیں گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔

    سورہ توبہ کے مطابق جن مشرکین کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا ان کے ساتھ معاہدے کے اختتام پر یہی سلوک کیا جانا تھا۔ ہوا یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد مشرکین کو حج کے مہینوں کے اختتام تک کی مہلت دی گئی جس کے بعد سب کے ساتھ قتال کرنے کا حکم دیا گیا قریش نے چونکہ اسلام قبول کر لیا تھا اس لیے وہ بچ گئے نہ کہ معاہدہ کی وجہ سے ۔
    عیسی علیہ السلام پر حقیقی طور پر ایمان لانے والے بہت کم تھے۔ جن کے اعداد و شمار میسر نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان پر ہجرت فرض ہو گئی تھی۔ سورہ نساء کے مطابق حضرت محمد ﷺ کے وہ مومنین جنھوں نے ہجرت نہیں کی، ان کا ٹھکانہ بھی جھنم قرار پایا۔ (4: 97)
    چنانچہ مومنین مسیح میں سے جنھوں نے ہجرت نہیں کی، انھیں اسی عذاب کا شکار کر دیا گیا جو ان کے منکرین پر آیا۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 7, 2021 at 12:56 pm

    آپ کی کتاب پڑھنے کا موقع ملا اور میرے بہت سے دوسرے اشکالات بھی دور ہو گئے لیکن کچھ اشکالات ابھی تک باقی ہیں

    پہلا۔

    کسی مشرک پر تلوار مسلط کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ اسلام یا موت ظاہری بات ہے کہ وہ اسلام قبول کرے گا لیکن دل سے وہ کافر ہی رہے گا اور منافق بن کر اسلامی سوسائٹی کے لئے سرطان کا پھوڑا ثابت ہوگا جس کا خمیازہ مسلمانوں نے فتنہ ارتداد کی صورت میں بھگتا تھا تو کنفیوژن یہ ہے کہ کیا اسلام یہی چاہتا تھا کہ لوگ منافق بن کر اسلام کی بیخ کنی کریں؟

    دوسرا۔

    مشرکین کو عذاب کی سزا ان کے مشرک ہونے کی وجہ سے دی گئی ہے تو پھر مشرک عورتوں کو سزا نہیں دی گئی ہے اگر یہ بات ہے کہ وہ خاوندوں کے تابع تھیں اس لئے ان کے خاوندوں کے قتل ہو جانے کے بعد یا اسلام لانے کے بعد وہ خود بخود مسلمان ہو جاتی لیکن ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں یہ مثالیں دیکھ چکے ہیں کہ عورت مسلمان ہیں اور شوہر کافر اور شوہر کافر ہے اور عورت مسلمان اور یہ مکہ کی مثالیں ہیں جو کہ اپنی بیویوں کو دبا کر رکھتے تھے مدینہ والوں کی تو بیویاں اپنے شوہروں کو پلٹ کر جواب تک دیا کرتی تھی لیکن آپ تمام عرب میں عورت کی تابعیت کی بات کر رہے ہیں تو پھر یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ عورتوں کو اختیار مذہب کی اجازت تھی تو پھر ان کو شرک کی سزا کیوں نہیں دی گئی؟

    تیسرا۔

    رسول کو جھٹلانے والے تمام لوگوں کو اللہ دنیا ہی میں عذاب دیتا ہے اور عذاب دینے کے لیے دنیوی اسباب ہی کو اختیار کرتا ہے تو وہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دل میں جھٹلاتے تھے اور اللہ کے نزدیک تو وہ پیغمبر کے منکر ہی تھے تو پھر انہیں عذاب کیوں نہیں دیا گیا اگر یہ دنیاوی اسباب کی محدودیت ہی تھی تو پھر پچھلی قوموں کو جو عذاب دیے گئے وہ بھی دنیاوی اسباب ہی سے دیے گئے تھے لیکن ان کی بار کوئی سکم نظر نہیں آتا اگر انسانی ہاتھوں سے پیغمبر کے منکرین کو عذاب نہیں دیا جا سکتا تھا تو اللہ دوسرے اسباب کو اختیار کر لیتا اور غامدی صاحب کے نزدیک رسول کے منکرین کے ساتھ دنیا میں وہی معاملہ ہوتا ہے جو کہ آخرت میں ہوگا تو پھر آخرت میں تو ظاہر کے مطابق فیصلے نہیں ہوں گے بلکہ باطن کے مطابق ہوں گے اور پچھلے تمام عذابات میں باطن ہی کے مطابق فیصلے ہوئے ہیں

    شاید یہی وجہ وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف میں سے کچھ لوگوں کا یہ موقف بھی ہے کہ مشرکین کو بھی جزیہ کی پیشکش کی گئی تھی اس موقف کے مقابلے میں جتنی روایات بھی آتی ہیں اکثر و بیشتر ضعیف ہیں

    اس کے علاوہ باقی تمام اشکالات دور ہو گئے ہیں

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 8, 2021 at 4:40 am

    ، پہلا اور تیسرا

    خدا کا منشا اپنے دین کی برتری قائم کرنا اور منکرین حق کو سزا دینا تھا۔ یہ اس نے کر دکھایا۔ رسول کے بعد کیا ہوا، اس کا تعلق دین سے نہیں۔ لوگ مرتد ہوئے، تو انھیں پھر سزا ملی۔ وہ طاقت ور تھے اور مسلمان نہایت کمزور تھے پھر بھی انھیں سزا ملی اور انھیں اسلام کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سزا کے خوف سے مجرم کا توبہ کرلینا ممکن ہے بلکہ ایسا ہی ہوا مگر مسئلہ وہ اشخاص نہیں خدا کے قانون اور اس کی سزا کے نفاذ کو دنیا کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کرنا تھا اور وہ بخوبی پورا ہوا۔ اور سزا سے بچ رہے تو ان کا فیصلہ ان کی موت کے بعد ہو جانا تھا۔

    گزشتہ اقوام کو عذاب دینے میں بھی محدودیتیں لاحق تھیں۔ وہاں بچوں، جانوروں اور پودوں و غیرہ تک اس کی زد میں آئے۔ انھیں بچانا ممکن نہ تھا۔ انسانی ہاتھوں سے جو عذاب دیا گیا اس میں کچھ دوسری طرح کی محدودیت ملوث رہی۔

    اس معاملے کو وسیع تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی مثآل سورہ توبہ میں دیکھیے ۔ عین اس وقت جب سب مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو پناہ دو اور اسے قرآن بتاؤ ممکن ہے وہ اب تک لا علم ہو۔ استثنائی معاملات سے خدا کا قانون باطل نہیں ہو جاتا۔ دنیا میں یہ ایسا ہی ممکن تھا۔

    دوسرا

    مرد و وعورت کے درمیان جس نوک جھونک کی مثال آپ نے دی وہ انفرادی معاملات ہیں۔ لیکن جب سماج ہی پورا بدل جائے تو عورت تو پورے کے پورے قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا۔ اس خواتین کا حالات کے تابع ہوکر اسلام قبول کر لینا بہت قرین قیاس تھا اور عملا ہوا بھی یہی۔ مرد کو پلٹ کر جواب دینے اور مرد پر انحصار کرنے میں بہت فرق ہے۔ آج کی عورت ہی کو دیکھیے کہ کس حد تک اسے آزادی اور اختیار حاصل ہے مگر مرد پر اس کا انحصار ختم نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ عورت جب اپنے سسرال رخصت ہوتی ہے تو بہت کچھ اثر قبول کرتی ہے۔ یہ ضمنی بات ہے لیکن جب پورا سماج ہی اسلام کے تابع ہو رہا ہو تو مرد بھی اس کی تاب نہیں لا پائے کجا یہ کہ عورت کوئی استقامت دکھا پاتی۔ چونکہ عملا اور حقیقتا یہ حکمت عملی پوری طرح کامیاب ہو کر سامنے آچکی اس لیے اس پر کوئی سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔

  • Hakim Ali

    Member February 8, 2021 at 6:14 am

    Thanks Irfan sir! Ap ka jawab sa mujy b apny sawalat ka jawab mil gia

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 10, 2021 at 9:35 am

    پہلا۔

    عورت اور مرد دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر ادھوری ہے دونوں کو ساتھ نبھانے کے لیے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں بات ہو رہی ہے کہ کیا عورت کو عرب میں اختیارِ مذہب کی اجازت تھی یا نہیں تو شوہر کا مسلمان ہونا اور عورت کا کافر ہونا اور شوہر کا کافر عورت کا مسلمان ہونا اور ان مثالوں کا مکہ میں وقوع پذیر ہونا جہاں عورت واقعتاً کافی حد تک متد کے تابع تھی جبکہ عرب کے دوسرے قبائل کا مذاق ایک دوسرے سے مختلف تھا یہ تمام چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ عورت کو عرب میں اختیار مذہب کی اجازت تھی تھی رہا قبائل کا اسلام قبول کرنا تو قبیلوں کے مردوں نے قتل کے خوف سے جبکہ عورتوں نے لونڈیاں بننے کے خوف سے اسلام قبول کیا تو سوال ہی یہی ہے کہ شرک کی بیماری تو دونوں میں یکساں ہیں لیکن علاج کے لیے ایک کی گردن پر چھری پھیری جارہی ہے اور ایک کو لونڈی بنایا جارہا ہے حالانکہ معاملے کی نوعیت بھی ایک جیسی ہے جس کا تقاضا ایک ہی دوا ہے لیکن ایک کو تو وہی دوا دی گئی ہے جو کہ بیماری سے متعلق ہے مگر دوسرے کو وہ دوا دی گئی ہے جو دوسری بیماری سے متعلق ہے

    دوسرا۔

    جو قوم رسول کو جھٹلا دیتی ہے اللہ اس پر دنیاوی اسباب کے ذریعہ سے عذاب ہوتا ہے گو کہ دنیا میں آخرت کی طرح چھوٹے پیمانے پر اللہ کی عدالت کا ظہور ہوتا ہے وہ لوگ جو ظاہری طور پر پیغمبر کو مانتے تھے لیکن دل میں پیغمبر کو جھٹلاتے تھے اللہ کے نزدیک تو وہ پیغمبر کے منکر ہیں لیکن انہیں تو عذاب نہیں دیا گیا حالانکہ اللہ کی دینونت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں بھی عذاب دیا جائے کہا گیا ہے کہ یہ انسانی ہاتھوں کی محدودیت تھی اگر یہ بات تھی تو اللہ دوسرے اسباب کو اختیار کر لیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی قوم پر عذاب انسانی ہاتھوں ہی سے تو آیا ہے لیکن وہاں کسی قسم کی محدودیت نظر نہیں آتی اس کے علاوہ پچھلی قوموں پر بھی جتنے عذاب آئے ان میں بھی کسی قسم کی محدودیت نظر نہیں آتی کہاں گیا کی محدودیت یہ ہے کہ ان میں بچے اور پودے ضائع ہوئے تھے بچوں کے ہلاک ہونے کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ مثلا ایک بچہ بچپن ہی میں کسی مہلک بیماری کی وجہ سے سسک سسک کر مر جائے آئے اور پودوں کے بارے میں توہم بولنا ہی پسند نہیں کریں گے لہذا بتائے کہ کیا وجہ ہے کہ پچھلے تمام اقوام بشمول سیدنا مسیح کی قوم پر جو عذاب آئے ان میں کسی قسم کی محدودیت نظر نہیں آتی ان میں تمام مشرکین خواہ وہ عورتیں ہو یا ظاہری مومن سب کو سزا ملی لیکن حضرت محمد کی بار محدودیت کی بحث چھڑ جاتی ہے

    تیسرا۔

    کسی مشرک پر تلوار مسلط کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ اسلام یا موت ظاہری بات ہے وہ اسلام قبول کرے گا لیکن دل سے وہ کافر ہی رہے گا اور منافق بن کر اسلامک سوسائٹی کے لیے سرطان کا پھوڑا ثابت ہوگا جس کا خمیازہ مسلمانوں نے فتنہ ارتداد کی صورت میں بھگتا کہا گیا کہ انہیں سزا ملی تھی تو میں نے عرض کیا کہ اسلام نے اپنے آپ کو اتنے بڑے خطرے میں کیوں ڈالا کہ اس کے مٹ جانے تک کا خطرہ لاحق ہوگیا یہ الگ بات ہے کہ سزا ملنے کے بعد بھی وہی منافقت کی فضا برقرار رہی تھی بس وہ موقع نہ پا سکے اور موقع نہ ملنے کی وجہ سے چند سالوں میں مٹ گئی تو کنفیوژن یہ ہے کہ کیا اسلام یہی چاہتا تھا کہ لوگ منافق بن کر اسلام کی بیخ کنی کریں یہ الگ بات ہے کہ اسلام نے کبھی کسی شخص کو کسی بھی حالت میں زبردستی مسلمان بنانے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اس نے لوگوں پر یہ بات چھوڑی ہے کہ آیا کہ وہ صراط مستقیم پر چلتے ہیں یا غلط راستے پر لیکن یہاں پورا اہتمام کیا گیا ہے کہ لوگ زبردستی اسلام قبول کریں

    شاید یہی وجہ وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف میں سے کچھ لوگوں کا یہ موقف بھی ہے کہ مشرکین کو بھی جزیہ کی پیشکش کی گئی تھی اس موقف کے مقابلے میں جتنی روایات بھی آتی ہیں اکثر و بیشتر ضعیف ہیں

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 10, 2021 at 9:49 am

    آپ اوپر دیے گئے جواب پر غور فرمائئے۔ بیشتر جوابات وہیں دیے جا چکے ہیں۔

    واقعات جس طرح پیش آئے وہی ایک حقیقت ہے اور حقیقت میں کوئی محدودیت موجود ہے تو وہ ہے۔

    مشرکین کو جزیہ کی پیشکش نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ متواتر تاریخ سے ۔ تاریخ میں یہ بالکل واضح ہے کہ مشرکین کے لیے قتل یا اسلام کے علاوہ کوئی انتخاب نہ تھا۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 10, 2021 at 3:12 pm

    میں نے پانچ سوال کیے تھے جن میں سے آپ نے دو کے نہایت مزے دار جواب دیے کی روح مطمئن ہو گئی اس کے علاوہ اور بھی اشکالات تھے وہ آپ کی کتاب کے وسیلے سے دور ہو گئے لیکن یہ تین اشکالات جو تقریباً ایک ہی قبیل سے ہیں وہ دور نہیں ہو سکے کیوں کہ ان کا ایک ہی جواب ہے کہ عذاب میں محدودیت تھی لیکن پچھلے جتنے عذاب آئے وہ محدودیت سے پاک تھے خصوصاً سیدنا مسیح کی قوم پر انسانی ہاتھوں سے جو عذاب آیا تھا اس کی تفصیل پڑھ کر تو ایمان ہی تازہ ہو گیا لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بار محدودیت کی بحث چھڑ جاتی ہے اس کے علاوہ غامدی صاحب کی ویڈیو کلپس کے مطابق رسول کی بار دنیا ہی میں چھوٹے پیمانے پر آخرت کی طرح اللّٰہ فیصلہ کر دیتا ہے ظاہری بات ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دفع ایسا نہیں ہوا ہے

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 10, 2021 at 3:20 pm

    اگر میں غلط نہیں تو تاریخ میں یہ بھی آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی کے خلاف بشمول مشرکین کے انھیں تین چیزوں کی دعوت دیتے ایک اسلام جزیہ یا پھر جنگ

    رہی بات قرآن کی تو قرآن میں کئی باتوں کو اجمالاً بیان کیا جاتا ہے کہیں تفصیلاً یعنی مخاطبین جزیہ کی پیشکش کو جانتے تھے اس لیے ذکر نہیں کیا گیا

    تو تھر ہم کیوں نہ وہ صورت اختیار کریں جس سے تمام اشکالات دور ہو جائیں اور اس کے لیے ہمیں محدودیات کا سہارا نہ لینا پڑے

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 10, 2021 at 3:21 pm

    اگر آپ کہیں تو حوالہ جات بھیجنے کی بھی کوشش کی جا سکتی ہے

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 10, 2021 at 6:34 pm

    جی آپ بھیج دیجیے۔ تاہم گزارش ہے کہ اس موضوع پر مطالعہ جہاد از عمار خان ناصر ملاحظہ کر لیجیے۔ تاریخ کا تناظر بھی واضح ہو جائے گا۔

    اور محدودیت جیسا کہ میں نے عرض کیا عذاب کی ہر صورت میں موجود ہے۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 10, 2021 at 8:48 pm

    جی ہاں میں کتاب جہاد ۔ ایک مطالعہ کا مطالعہ کر چکا ہوں لیکن عمار بھائی نے تقریباً تمام روایات طبری، تاریخ امم والملوک،بلاذری اور دوسری تاریخی کتب سے لی ہیں جو اکثر و بیشتر مردود ہوتی ہیں اور ان کی بنیاد پر کسی چیز کا قطعی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اس کے علاوہ غامدی صاحب نے جو قانون اتمام حجت کے حق میں جو روایات جمع کی ہیں وہ بھی دیکھیں لیکن وہ تمام روایات ایمبیگیوس تھیں ان روایات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ نے جو جنگ لڑی وہ دینی جنگ تھی یہاں غامدی صاحب کی بات بھی مانی جا سکتی ہے اور مولانا مودودی کی بھی دوسرا وہاں پہلے حصے میں ایک روایت ہے جس میں عذاب کا ذکر آیا ہے لیکن وہ پڑھنے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کا لفظ لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے حضرت عمر نے تراویح کو بدعت کہا اور اس پر عمل بھی کیا اس کی سند کا مجھے علم نہیں ہے لہذا ان روایات سے بھی میں مطمئن نہیں ہوا

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 10, 2021 at 8:49 pm

    مندرجہ ذیل روایات میں مشرکین سے اسلام نہ قبول کرنے کی صورت میں جزیہ لینے کا حکم دیا گیا ہے اور آخری حربے کے طور پر جنگ ہو گی لہذا قرآن نے اس بات کا ذکر ہی نہیں کیا جس کے بارے میں صحابہ اور مشرکین دونوں پہلے سے جانتے تھے اور مسلم کی روایت کے تحت نووی کی تشریح بھی مفید رہے گی یہ روایات مسلم ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ اور مشکوٰۃ میں حضرت بریدہ سے مروی ہیں

  • Muhammad Usama Habib

    Member February 13, 2021 at 7:44 am

    ہم جواب کے منتظر ہیں۔

    جزاکاللہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar February 13, 2021 at 9:32 am

    مشرکین کے قتل پر قرآن اور تاریخ دونوں متفق ہیں۔ تاریخ سے مہیا کی جانے والی روایات چند روایات نہیں ہیں جن کا انکار کیا جا سکے۔ یہ خبر متواتر کے درجے کی ہے کہ مشرکین کے لیے جزیہ کا آپشن نہیں تھا۔ قرآن سے بھی یہی ثابت ہے جہاں مشرکین کے لیے تلوار اور اہل کتاب کے لیے جزیہ کا الگ الگ حکم دیا گیا ہے۔ اس میں کبھی کوئی اشکال نہیں رہا۔

    تاویل اس روایت کی جائے تو جو بظاہراس سے مختلف بات کہہ رہی ہے۔ روایات میں چونکہ پورا سیاق و سباق نہیں ہوتا اس لیے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس موقع اور وقت کی ہے۔ مشرکین سے اہل عرب کے مشرکین مراد ہیں یا عرب کے باہر کے۔ اس سے نصاری مراد ہیں یا اہل عرب۔ یہ حکم قرآن کی آیت سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔

    اس لیے تواتر کے مقابلے میں انفرادی روایت کی تاویل کی جائے یا اسے رد کرنا ہوگا۔ کیونکہ روایت میں راویوں کے تصرفات ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے قرآن اور خبر متواتر کی تاویل کا رد نہیں کیا جا سکتا۔

You must be logged in to reply.
Login | Register