Forums › Forums › Epistemology And Philosophy › Is God Made Of Amar?
Tagged: God
-
Is God Made Of Amar?
Posted by Muhammad Ali on February 4, 2021 at 3:17 amA while ago, I was talking to one of tabligi jamat member and he said that they believe God is made of Amar, everything from leaf to root is Amar.
Is Amar is material like Noor from which God is made?
Nadeem replied 3 years, 9 months ago 5 Members · 13 Replies -
13 Replies
-
Is God Made Of Amar?
-
Ahsan
Moderator February 4, 2021 at 3:53 amQuran o Hadith are empty of such idea. Also, God is not dependent on anything. Also, the notion that god is made of light is not correct.
What is amar btw? if its arabic then it means to give order etc and if its urdu then it means which cannot die. Can you elaborate? -
Muhammad Ali
Member February 4, 2021 at 4:20 amWe were talking about Wahad tul wajud, and I said Sufis believe God is made of Noor, then he told me that they believe God is made of Amar.. Everything in existence is made of that Amar. There is no such thing as “our own existence”.
-
Ahsan
Moderator February 4, 2021 at 7:19 amOk got it.
According to Quran 42:11 and Surah Iklhas, there is nothing like Allah. We dont find any idea in Quran what Allah is made of. Allah is self sustainer etc. The idea of Allah being made of something is totally wrong.
-
Muhammad Ali
Member February 4, 2021 at 3:47 pmCleared 👍
-
-
Nadeem
Member February 4, 2021 at 9:45 amI agree with Ahsan. There is nothing like Allah, but Allah has given us an example to understand. Here it is.
[24:35] GOD is the light of the heavens and the earth. The allegory of His light is that of a concave mirror behind a lamp that is placed inside a glass container. The glass container is like a bright, pearl-like star. The fuel thereof is supplied from a blessed oil-producing tree, that is neither eastern, nor western. Its oil is almost self-radiating; needs no fire to ignite it. Light upon light. GOD guides to His light whoever wills (to be guided). GOD thus cites the parables for the people. GOD is fully aware of all things.
اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، (اِس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں) اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے
-
Hasan-Ali Younis
Member February 4, 2021 at 12:45 pmThose who try to describe Him can never adequately do so nor can thinkers encompass Him in their thought. Real thinkers may derive lessons from His signs but do not try to think about the nature of His Essence. “But they do not attain any of His knowledge except what He wills.”
It is impossible to grasp His true description, let alone His Essence. Thinkers must learn through the Signs which indicate the splendor of His Power, but must not attempt to reflect on the nature of His Essence because the Holy Prophet (alaihi salat wasalam) said, “Reflect on His creation, but do not reflect on His Essence.”
-
Muhammad Ali
Member February 4, 2021 at 3:48 pm👍🏼
-
Nadeem
Member February 4, 2021 at 4:08 pmAny thoughts on how Allah described himself using the analogy I posted above. Verse 24:35
-
Muhammad Ali
Member February 4, 2021 at 4:21 pmThanks sir 👍🏼
-
Hasan-Ali Younis
Member February 4, 2021 at 5:35 pmAllah uses light and says he is the light of the heavens and the earth, now if we take a literal reading does that mean Allah is everything that has light. Of course not no Muslim believes this. So my understanding is that Allah is light in the sense of Allahs path is the truth as Allah in the same ayat mentions that Allah bestows his light onto those he wills. Now a literal reading would mean that nur is Allah and Allah gives a part if himself to whom he will and thats just some sort of pantheism and takes away from the Fact Allah is one. So Allah says he guides us to his light, which means to the right path/his path. This is personally the understanding I follow.
Allahu Alim.
-
Muhammad Ali
Member February 4, 2021 at 5:50 pm👍🏼.
-
Afia Khan
Member February 4, 2021 at 6:23 pm(تمثیل یہ ہے کہ) اللہ زمین اور آسمانوں کی روشنی [67] ہے۔ (انسان کے دل میں) اُس کی اِس روشنی کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک طاق جس میں ایک چراغ [68] ہے۔ چراغ شیشے کے اندر ہے۔ شیشہ ایسا ہے، جیسے ایک چمکتا ہوا [69] تارا۔ وہ زیتون کے ایسے شاداب درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ [70] غربی۔ اُس کا تیل (ایسا شفاف ہے کہ) گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھے [71] گا۔ روشنی کے اوپر [72] روشنی! اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی اِس روشنی کی ہدایت بخشتا [73] ہے۔ اللہ یہ تمثیلیں لوگوں کی رہنمائی کے لیے بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز سے واقف [74] ہے۔
جاوید احمد غامدی
67 یعنی اُس کی معرفت اور اُس پر ایمان ہی اِس کائنات کی روشنی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ آسمان و زمین، بلکہ یہ پوری کائنات اُس شخص کے لیے ایک عالم ظلمات اور اندھیر نگری ہے جو خدا کو نہیں مانتا یا مانتا ہے، لیکن خدا کی صفات اور اُن کے مقتضیات کو نہیں تسلیم کرتا۔ ایسا شخص نہ یہ جان سکتا کہ یہ دنیا کہاں سے آئی ہے اور نہ یہ جان سکتا کہ اِس کے وجود میں آنے کی غایت اور مقصد کیا ہے؟ وہ خود اپنے متعلق بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اُس کا مقصد وجود کیا ہے؟ وہ اِس دنیا میں مطلق العنان اور شتر بے مہار ہے یا پابند و محکوم؟ وہ مسؤل ہے یا غیر مسؤل؟ اُس کے لیے کیا خیر ہے اور کیا شر؟ اُسے ظلم کی روش اختیار کرنی چاہیے یا عدل کی؟ اُسے مجرد اپنے مفاد اور خواہشوں کی پیروی کرنی چاہیے یا اُن سے کسی بالا تر نصب العین کی؟ اِن سوالوں کے صحیح جواب ہی پر صحیح اور کامیاب زندگی کا انحصار ہے۔ لیکن جو شخص خدا کو نہیں مانتا، وہ اِن سوالوں کا صحیح حل نہیں پا سکتا۔ وہ اندھیرے میں اندھے بھینسے کی طرح بھٹکتا پھرتا ہے اور بالآخر ایک دن قعر ہلاکت میں گر کر اپنے کیفر کردار کو پہنچ جاتا ہے۔ البتہ جو شخص خدا کو اُس کی صحیح صفات کے ساتھ مانتا ہے، وہ اِس کائنات کا سرا بھی پا جاتا ہے اور اِس کا انجام بھی اُس پر واضح ہو جاتا ہے۔ اُس پر اُن تمام سوالوں کے جواب بھی روشن ہو جاتے ہیں جن کو خدا کا نہ ماننے والا کبھی حل نہیں کرسکتا۔ اِس وجہ سے یہ دنیا اُس کے لیے اندھیر نگری نہیں رہتی، بلکہ ایمان کے نور سے اُس کے لیے اِس کی ہر چیز جگمگا اٹھتی ہے اور اِس کا ہر پہلو اُس پر روشن ہو جاتا ہے۔ وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے، پورے دن کی روشنی میں اٹھاتا ہے اور جس سمت میں بھی چلتا ہے، خدا کے ایمان کا نور اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہی حقیقت اِس ٹکڑے میں واضح فرمائی گئی ہے کہ اِس آسمان و زمین کا نور اللہ ہے۔ جس کے پاس یہ نور ہے، وہ روشنی میں اور صراط مستقیم پر ہے۔ اور جو اِس نور سے محروم ہے، وہ ایک عالم ظلمات میں بھٹک رہا ہے اور کوئی دوسرا اُس کو روشنی نہیں دے سکتا۔ ’وَمَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوْرًا فَمَا لَہٗ مِنْ نُّوْرٍ‘۔‘‘
(تدبر قرآن ۵/۴۰۹)
68 یہ ایک مرکب تمثیل ہے۔ اِس میں طاق سے مراد انسان کا دل ہے جو گویا ایک چراغ دان ہے، جس میں خدا کے نور ایمان کا چراغ جلا کر رکھ دیا جائے تو انسان کا ظاہر وباطن اِس طرح روشن ہو جاتا ہے، جس طرح اگر کوئی چراغ گھر میں کسی اونچی جگہ پر رکھ دیا جائے تو اُس سے پورا گھر روشن ہو جاتا ہے۔
69 یعنی خارجی اثرات سے پوری طرح محفوظ ہے۔ نہ اُس کی لو کسی فلسفے کے زیغ و ضلال یا خواہشات نفس کی ہوا کے جھونکوں سے منتشر ہونے پاتی ہے اور نہ شیشے پر انحرافات کی کوئی گرد ہے کہ اُسے میلا کر دے اور اُس کی روشنی کے لیے حجاب بن جائے۔ وہ چمکتے ہوئے تارے کے مانند صاف اور شفاف ہے۔
70 یعنی ایمان کا یہ چراغ جس فطری طلب واستعداد کے تیل سے روشن ہوتا ہے، وہ وسط باغ کے درختوں کا تیل ہے جو زیادہ شاداب ہوتے ہیں۔ چنانچہ اُن کا تیل بھی زیادہ لطیف ہوتا ہے اور زیادہ تیز روشنی دیتا ہے۔ اِس کے برعکس باغ کے مشرق و مغرب میں کناروں کے درخت ہمیشہ دھوپ اور ہوا کی زد میں رہتے ہیں، اِس لیے زیادہ اچھے پھل بھی نہیں دیتے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو طلب واستعداد کے عین نقطۂ اعتدال پر قائم ہونے کی طرف بھی اشارہ ہو گیا ہے۔
71 مدعا یہ ہے کہ قبول حق کی یہ استعداد اِس قدر قوی ہے کہ گویا بے تاب ہو رہی ہے کہ حق کب اُس کے سامنے آئے اور وہ بغیر کسی تردد اور تاخیر کے اُس کو قبول کر لے۔
72 یعنی فطرت کی روشنی پر ایمان کی روشنی جو انسان کے پورے وجود کو ’نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ‘ بنا دیتی ہے۔
73 آیت میں ’ہدٰی یہدی‘ کا صلہ ’ل‘ کے ساتھ آیا ہے جس سے یہ توفیق بخشی کے مفہوم پر متضمن ہو گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا جب قبول حق کی یہ استعداد کسی شخص میں دیکھتا ہے تو اُسے توفیق دیتا ہے کہ وہ دعوت حق پر لبیک کہے اور ایمان کی روشنی سے اپنا سینہ منور کر لے۔ یہ توفیق جس قانون کے مطابق ملتی ہے، وہ قرآن میں جگہ جگہ بیان ہواہے کہ خدا اپنی توفیق مزید سے اُنھی کو نوازتا ہے جو پہلے سے بخشی ہوئی توفیق کی قدر کرتے ہیں۔
74 چنانچہ ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے۔
75 یہ اُن معابد کی طرف اشارہ ہے جو براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم ہوئے، یعنی بیت الحرام اور بیت المقدس۔ اِن کے لیے ’رَفْع‘ کا لفظ اُسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، جس میں یہ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ’اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ‘ میں استعمال کیا گیا ہے۔
76 لفظ ’ذِکْر‘ یہاں یاد کرنے اور دوسروں کو یاددہانی کرنے کی تمام صورتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
77 اوپر جس نور ایمان کا ذکر ہے، یہ اب اُس کے حاملین کو نمایاں کر دیا ہے۔ آیت ۳۴ میں ’الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ‘ کے الفاظ اِنھی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ ایمان کا چراغ جن دلوں کے طاق میں رکھا جاتا ہے، وہ بت خانوں اور مے کدوں کے طاق نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے معابد کے طاق ہیں۔چنانچہ جن کے یہ دل ہیں، وہ بھی ہر جگہ نہیں ملتے۔ اُن کے ملنے کی جگہ بھی خدا کی مسجدیں اور اُس کے معابد ہیں۔ یہ موثر کی وضاحت کے بعد گویا اثر کا بیان ہے کہ نور ایمان سے جب دل روشن ہو جاتے ہیں تو صرف علم ہی نہیں، انسان کا عمل بھی اُسی نور کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور خدا کے قائم کیے ہوئے یہ معابد اُس کے اُن بندوں سے آباد ہو جاتے ہیں جن کو چشم فلک صدیوں سے یہاں رکوع وسجود کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ مخاطبین کے لیے یہ موعظت ہے کہ وہ بھی علم وعمل کی یہی پاکیزگی حاصل کرنے کی سعی کریں۔ اُن کے صالحین اسلاف کی یہ تمثیل اِسی مقصد سے بیان کی گئی ہے۔
-
-
Nadeem
Member February 4, 2021 at 7:10 pmI will be using Ghamidi Sahibs teachings and respectfully voice my disagreement. To me Ghamidi Sahibs interpretation doesn’t make sense. I do not believe Quran provides such an extreme indirect message. I find Quran’s message to be very streight forward. The way Ghamidi Sahib interpretted it, anyone can use this method to take message in any direction. Although Allah provided an analogy of himself, but I am sure there is a more direct message.
Sponsor Ask Ghamidi