Forums › Forums › Sources of Islam › Mutawatir Hadith
-
Mutawatir Hadith
Posted by Fahim Ahmed on February 24, 2021 at 4:52 pmIf sufficient amount of people are narrating the same statement how does it not reach the level of tawatur? How do we differentiate between mass transmission and sanad based tawatur transmission? At the end of the day any verbal statement or abstract concept will be transmitted through individual reporting. It is not possible to trace mass transmission of such non-action/non-physical items. Thus, there will invariably be countable collection of chains of narrations which will be authenticated. I get the impression from Ustadh Ghamidi’s usuli discussion that as long as we have countable number of distinct chains of a narration (no matter how numerous they are), we can not claim it to be tawatur at the level of mass-transmission. Need further clarification on this.
Haris Virk replied 3 years, 9 months ago 4 Members · 7 Replies -
7 Replies
-
Mutawatir Hadith
-
Faisal Haroon
Moderator February 24, 2021 at 6:29 pmTawatur in hadith is actually a misconception. Khatib Baghdadi, for example, defines mutawatir hadith as that which is reported by such a large number of people that it would be incomprehensible to imagine any corruption without a compelling force. Such a hadith actually doesn’t exist. Even many ahadith considered as mashhur (must be reported by at least two narrators in each generation) only reach that level in the third or the fourth layer. In the initial layers they are all reported by single narrators.
-
A Hasan
Contributor February 25, 2021 at 9:25 amAren’t ahadith about isa عليه السلام in this level? Do you know how many sahabah relate them?
-
-
Fahim Ahmed
Member February 25, 2021 at 9:23 am -
Faisal Haroon
Moderator February 25, 2021 at 9:51 amYes that is my understanding from Amin Ahsan Islahi sahab’s book Fundementals of Hadith Interpretation. You can download the book in PDF here:
-
Haris Virk
Moderator February 25, 2021 at 10:30 amمحمد حسن الیاس
سوال:حدیث متواتر کسے کہتے ہیں؟عام خبر واحد اور حدیث متواتر کے حکم میں کیا کوئی فرق ہے؟
مسلمانوں کی علمی روایت میں موجود اصولیین اور محدثین، دونوں بعض احادیث کومتواتر قرار دیتے ہیں۔
کیا یہ وہی تواتر ہے جو قرآن مجید کے نقل کے موقع پر بیان کیا جاتا ہے،اور جس کی تعریف یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ ’خبر عدد يمتنع معه – لكثرته – تواطؤ على كذب‘ ،’’یعنی ایسی خبر جو اتنے لوگوں نے بیان کی ہو جن کی کثرت کی وجہ سے ان کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو‘‘؟
جواب: حدیث پر تواتر کا حکم لگانے والے اہل علم اس بارے میں دو آرا رکھتے ہیں:
پہلی یہ کہ حدیث کے تواتر سے مراد یہ ہے کہ جس طرح کسی خبر کا متواتر ہونا قطعیت، یعنی یقین کا فائدہ دیتا ہے، اسی طرح اگر کوئی اور خبر بھی قطعیت اور یقین کا فائدہ دے تو اس کی حیثیت بھی تواتر تک پہنچ جانی چاہیے۔ لہٰذا ان کے نزدیک حدیث کا تواتر کیفیت نقل کا نام نہیں، بلکہ ’’علم القطع کے حصول کی بنیاد پر کسی خبر کا حکم ہے‘‘۔
اس راے کو اہل علم ’ما أفاد القطع‘ سے بیان کرتے ہیں، یعنی وہ خبر جس وقت وجود میں آئی تو ابتدا خبر واحد کے ہی طریقہ پر ہوئی اور نقل بھی وہ خبر واحد کے ہی اصول پر ہوئی ہے، لیکن اس خبر واحد میں جو بات بیان ہوئی، وہ چونکہ قطعیت اور یقین کا فائدہ دیتی ہے، لہٰذا اس حدیث کو نتیجے کے لحاظ سے تواتر کے’’ قائم مقام‘‘ سمجھ لینا چاہیے۔
دوسری راے یہ ہے کہ اگر کسی خبر کو معتد بہ تعداد (جو کہ محدثین کے نزدیک مختلف ہے)میں لوگ بیان کرنا شروع کردیں تو وہ بات بھی اس درجہ کو پہنچ جاتی ہے جس درجہ میں کوئی متواتر خبر پہنچتی ہے۔ لہٰذا جب معاشرے میں افراد کی اتنی بڑی تعداد ان ’’اخبار‘‘ کو بیان کرنے لگ جائے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال ہو تو اسے متواتر مان لینا چاہیے۔
ہمارے نزدیک ان دونوں آرا کے تحت حدیث پر تواتر کی صفت کو شامل کرنا محل نظر ہے۔
پہلی راے کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تواتر کا تعلق کسی عمل کے نقل ہونے کی ایک خاص کیفیت سے ہے ۔اس کا تعلق نفس مضمون کے صدق اور کذب سے نہیں ہے۔
مثلاًیہ بات کہ انسانوں کی اتنی بڑی تعداد بیان کرتی ہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال ہے کہ محمد بن عبداللہ ایک انسان تھے، جنھوں نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا تھا تو یہاں رسول اللہ کے اس دعویٰ کی صداقت زیربحث نہیں ہے ۔ چونکہ لوگوں نے واقعے کو متواتر نقل کیا ہے، لہٰذا آپ سچے رسول ہی تھے ،آپ کی رسالت کی سچائی اس متواتر انتقال خبر میں زیر بحث نہیں ہے،بلکہ اس دعویٰ کے مطلق حدوث پر انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کا اتفاق ہے جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا ًمحال ہے۔گویا یہ واقعات کے بارے میں انسانوں کا مشترک حافظہ ہے۔
اس کی ایک اور مثال یہ ہے کہ قائد اعظم پاکستان کے بانی تھے۔یہ خبر متواتر ہے۔پوری قوم بیان کرتی ہے،لیکن یہ بات بیان کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ ہی کو بانی ہونا بھی چاہیے تھا۔اس دعوے کا تعلق دوسرے دلائل سے ہے، محض تواترسے نہیں ہے۔
چنانچہ کسی قطعی حقیقت کو تواتر کے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے،اس لیے خبر واحد کو ’ما أفاد القطع‘ کی وجہ سے تواتر کا قائم مقام بنانا درست نہیں ہے۔ تواتر نقل علم کی اصطلاح ہے، کسی بات کی قطعی صداقت کے حصول کا ماخذ نہیں ہے۔
دوسری راے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ تواتر کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ نقل علم کی اصطلاح ہے۔یہ اصطلاح علم و عقل کے مسلمات کو سامنے رکھ کر وضع کی گئی ہے ۔انسان اس طریقۂ نقل علم سے حقائق کا ادراک کرتا ہے۔لہٰذا جس واقعہ کی اپنے حدوث سے آج تک ایسی اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے گواہی دی ہو جن کا مل کر جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال ہے تو اسے خبر متواتر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ خبریں جن کو محض معاشرے میں مشہور ہونے کی وجہ سے متواتر مان لیا گیا ہے، یعنی حدوث کے وقت تو نہیں، لیکن اس کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد نے ان اخبار کو بیان کرنا شروع کردیا تھا، اس لیے متواتر ہیں ،یہ موقف درست نہیں ہے،اس لیے کہ تواتر اپنی ابتدا اور اپنے حدوث کے وقت سے تواتر کہلاتا ہے، نہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی خبر کے معروف یا مشہور ہو جانے سے وہ بات تواتر کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔
چنانچہ ہمارے نزدیک تواتر خالص ’’نقل علم ‘‘ کی اصطلاح ہے، یہ کوئی مذہبی اصطلاح نہیں ہے، لہٰذا کوئی خبرواحد کسی قطعی حقیقت کو بیان کر کے متواتر بن جاتی ہے، نہ اس کے ثبوت کے لیے افراد کی تعداد کو طے کرنے کا حق مذہبی علما کو حاصل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تواتر کے اسی محکم ذریعۂ نقل علم کو خدا کا دین پہنچانے کے لیے اختیار کیا ہے۔اللہ کے رسول نے خدا کے کلام کو اپنے حدوث کے وقت ہی سے انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو سنایا، لکھایا، دہرایا جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلاً محال تھا، اسی لیے آج بھی ہم پورے اعتماد سے دنیا کو یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کلام دو، چار، آٹھ افراد نے نہیں، بلکہ انسانی نسلوں نے منتقل کیا ہے، بالکل ایسے جیسے یہ نسلیں آج بھی حقائق منتقل کرتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب باتیں ہم تک خبر آحاد ہی کے طریقے پر منتقل ہوئی ہیں ۔یہ آپ کی زندگی کا تاریخی ریکارڈ ہے۔کسی خبر واحد پر اگر ہمارا اطمینان ہے کہ یہ رسول اللہ سے منسوب صحیح بات ہے اور اس میں دین سے متعلق کوئی ایسی مستقل بالذات ہدایت بیان نہیں ہوئی جو دین کے اصل ماخذ ـــــــــ قرآن و سنت ـــــــــ میں موجود نہیں ہے تو ہر وہ خبر واحد بھی اسی بنا پر واجب اطاعت ہے۔اس مقصد کے لیے اس خبر آحاد کے نقل کی کیفیت کو تبدیل کرنا اور اسے قرآن مجید کے برابر لا کھڑا کرنا خلاف حقیقت ہے ،اس لیے کسی حدیث پر متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
Sponsor Ask Ghamidi
The discussion "Mutawatir Hadith" is closed to new replies.