Forums › Forums › Islam And Family › Question About Ila
Tagged: Divorce
-
Question About Ila
Posted by Saira on April 4, 2021 at 10:40 pmWhat happens if wife abondons intimacy with his husband for more than four months? Does ruling of Illa would become active? What happens if she didn’t know that ruling was also applied vice versa and she did Illa in her past ? What she has to done in order to expiate herself from this wrongdoing?
Faisal Haroon replied 3 years, 7 months ago 4 Members · 4 Replies -
4 Replies
-
Question About Ila
-
Munnoo Khan
Member April 4, 2021 at 11:42 pmSo long as the husband has not uttered the word of divorce to her, and the wife has not gone to the qaadi to seek a divorce, then divorce has not taken place. She is still his wife and divorce does not take place automatically.
Source: https://www.google.com/amp/s/islamqa.info/amp/en/answers/11681
-
Saira
Member April 5, 2021 at 1:52 amI appreciate for your reply . The source however you presented is entirely another case. This question is regards to Ghamidhi Sahab’s video on Zihaar and Illa directive. What I understood from the video that the ayat is not addressing just man but also woman.
Now if a wife also pronunces Illa without knowing the ruling and because of ongoing problems between spouses she infact deserted husband on bed while living in same house for more than four months and maybe after 6 months, they started having intimacy again. What would be ruling now? Or how a wife expiate herself while remaining in marriage.?
-
Afia Khan
Member April 5, 2021 at 11:34 amIlla and Zihar occurs when husband ( in my knowledge, as he has the right to divorce usually) takes oath (qasam) of not being with that wife. The kaffara of qasam is due to break that oath which is mentioned in Quran. And it considered as one Talaq. Without oath it is not considered as Illa.
AlBaqara 225-227
(عورتوں سے متعلق بعض دوسرے معاملات بھی ہیں، اِنھیں بھی سمجھ لو) اور اپنی قسموں کے لیے اللہ کے نام کو دوسروں سے حسن سلوک کرنے اور حدود الٰہی کی رعایت کرنے اور لوگوں کے مابین صلح کرانے میں رکاوٹ نہ بناؤ اور (متنبہ رہو کہ) اللہ سمیع و علیم [596] ہے۔اللہ تمھاری اُن قسموں پر تو تمھیں نہیں پکڑے گا جو تم بے ارادہ کھا لیتے ہو، لیکن وہ قسمیں جو اپنے دل کے ارادے سے کھاتے ہو، اُن پر لازماً تمھارا مواخذہ کرے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار [597] ہے۔(اِس لیے) جو لوگ اپنی بیویوں سے نہ ملنے کی قسم کھا بیٹھیں، [598] اُن کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے۔ پھر وہ رجوع کر لیں تو بے شک، اللہ بخشنے والا ہے اُس کی شفقت ابدی [599] ہے۔اور اگر طلاق کا فیصلہ کر لیں تو اللہ سے ڈرتے ہوئے کریں، اِس لیے کہ اللہ سمیع و علیم [600] ہے۔
جاوید احمد غامدی
596 عورتوں سے نہ ملنے کی قسم کھا لینے کا جو حکم آگے بیان ہوا ہے، یہ اُس کی تمہید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی قسم کھانا چونکہ اُسے گواہ ٹھیرانا ہے، لہٰذا اول تو کوئی ایسی قسم کھانی نہیں چاہیے جس سے اللہ یا اُس کے بندوں کے حقوق تلف ہوتے ہوں، لیکن اِس طرح کی قسم اگر اتفاق سے کوئی شخص کھا بیٹھے تو اُسے توڑ دینا چاہیے۔ قسم کے حیلے سے دوسروں کی حق تلفی اور نیکی اور تقویٰ اور نصح و خیر خواہی کے کاموں سے گریز کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے۔ اِس مضمون کے لیے ’اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، اُن کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اِس طرح کی ہے:
’’بر، تقویٰ اور اصلاح کے تینوں لفظوں نے یہاں خیر اور نیکی کے تمام اقسام کو جمع کر لیا ہے۔ ’بر‘ اُن تمام نیکیوں پر حاوی ہے جن کا تعلق والدین، رشتہ داروں، مسکینوں، یتیموں اور دوسرے حقوق العباد سے ہے۔ ’تَقْوٰی‘ اُن نیکیوں پر حاوی ہے جو حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور ’اِصْلاَح‘ سے مراد وہ نیکیاں ہیں جو معاشرے سے تعلق رکھنے والی ہیں۔‘‘
(تدبر قرآن ۱/۵۲۹)
597 یعنی اِس طرح کی قسم تو ہرحال میں توڑ دینی چاہیے، لیکن اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اُس پر مواخذہ نہ ہو گا۔ اللہ اُن قسموں پر تو بے شک، نہیں پکڑیں گے جن کا تعلق دل سے نہیں ہوتا اور وہ بغیر کسی ارادے کے محض تکیۂ کلام کے طور پر زبان سے ٹپک پڑتی ہیں، مگر ایسی قسم جو پختہ عزم کے ساتھ اور دل کے ارادے سے کھائی گئی ہے، جس کے ذریعے سے کوئی عہد و پیمان باندھا گیا ہے، جس سے حقوق و فرائض پر کوئی اثر مترتب ہوتا ہے یا وہ خدا کی کسی تحلیل و تحریم پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اُس پر لازماً پکڑیں گے۔ عام قاعدے کے مطابق اِس پکڑ سے بچنے کے لیے آدمی کو توبہ و استغفار کرنی چاہیے، لیکن قرآن نے آگے سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۸۹ میں بتایا ہے کہ توبہ کے ساتھ اِس کے لیے کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔
598 اِس کے لیے اصل میں ’اِیْلَائ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ عرب جاہلیت کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم بیوی سے زن و شو کا تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا لینا ہے۔ اِس کے ساتھ حرف ’مِنْ‘ اِسی مفہوم کے پیش نظر استعمال ہوا ہے۔ اِس طرح کی قسم اگر کھا لی جائے تو اِس سے بیوی چونکہ معلق ہو کر رہ جاتی ہے اور یہ چیز عدل و انصاف اور برو تقویٰ کے منافی ہے، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِس کے لیے چار مہینے کی مدت مقرر کر دی ہے۔ شوہر پابند ہے کہ اِس کے اندر یا تو بیوی سے ازدواجی تعلقات بحال کر لے یا طلاق دینے کا فیصلہ ہے تو اُس کو طلاق دے دے۔ اِس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ عذر معقول کے بغیر بیوی سے ازدواجی تعلق منقطع کر لینا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اِس کے لیے اگر قسم بھی کھا لی گئی ہے تو اُسے توڑ دینا ضروری ہے۔ یہ عورت کا حق ہے اور اِسے ادا نہ کرنے پر دنیا اور آخرت ، دونوں میں شوہر کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی معاملہ، ظاہر ہے کہ بیوی کا بھی ہو گا۔ وہ بھی کسی معقول وجہ کے بغیر شوہر کے ساتھ یہ تعلق قائم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔
599 یعنی اگرچہ یہ قسم حق تلفی کے لیے کھا ئی گئی تھی اور اِس طرح کی قسم کھانا کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے، لیکن اصلاح کر لی جائے تو اللہ تعالیٰ اِسے معاف فرما دیں گے۔
600 یعنی اگر طلاق کا فیصلہ کرلیا ہے تو اِس میں اللہ کا قانون اور اُس کے حدودو قیود ہرحال میں پیش نظر رہنے چاہییں۔ اللہ ہر چیز کو سنتا اور جانتا ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو گی تو وہ ہرگز اُس سے چھپی نہ رہے گی۔
-
Faisal Haroon
Moderator April 5, 2021 at 3:38 pmDepending upon the circumstances, abandoning intimate relationships might be a sin, but as long as a proper divorce has not taken place the marriage still remains intact.
Please see following for details about directives of ila and zihar:
Sponsor Ask Ghamidi