According to Ghamidi Sahab, they can be used as a reference but under the light of Quran only, becasue Quran calls itself ‘Muhaiman’ (Guard/Yardstick) over these books. Quran at many places itself refers to those books regarding some historical events after mentioning them briefly, for instance:
فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الطُّوۡفَانَ وَ الۡجَرَادَ وَ الۡقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۟ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾
سو ہم نے اُن پر طوفان بھیجا، ٹڈیاں، جوئیں اور مینڈک چھوڑ دیے اور خون برسایا۔ یہ سب نشانیاں تھیں، بنی اسرائیل کے صحیفوں میں جن کی تفصیل کر دی گئی [482] ہے۔ اِس پر بھی وہ تکبر ہی کرتے رہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ مجرم لوگ تھے۔
(Quran – 7:133)
(Excerpt from Al-Bayan: Javed Ahmed Ghamidi)
_______________________
[482] اصل الفاظ ہیں: ’اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ‘۔ یہ حال واقع ہوئے ہیں اور قرینہ دلیل ہے کہ ’مُفَصَّلٰت‘ کا ظرف یہاں محذوف ہے، یعنی اُن کی تفصیل بنی اسرائیل کے صحیفوں میں کر دی گئی ہے۔ چنانچہ بائیبل کی کتاب خروج میں طوفان کی تفصیل اِس طرح آئی ہے:
’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا تاکہ سب ملک مصر میں انسان اور حیوان اور کھیت کی سبزی پر جو ملک مصر میں ہے، اولے گریں۔ اور موسیٰ نے اپنی لاٹھی آسمان کی طرف اٹھائی اور خداوند نے رعد اور اولے بھیجے اور (بجلیوں کی) آگ زمین تک آنے لگی اور خداوند نے ملک مصر پر اولے برسائے۔ پس اولے گرے اور اولوں کے ساتھ آگ ملی ہوئی تھی اور وہ اولے ایسے بھاری تھے کہ جب سے مصری قوم آباد ہوئی، ایسے اولے ملک میں کبھی نہیں پڑے تھے اور اولوں نے سارے ملک مصر میں اُن کو جو میدان میں تھے، کیا انسان کیا حیوان، سب کو مارااور کھیتوں کی ساری سبزی کو بھی اولے مار گئے اور میدان کے سب درختوں کو توڑ ڈالا۔‘‘
(۹:۲۲-۲۵)
ٹڈی دل کے حملے کی تفصیل اِس طرح بیان ہوئی ہے:
’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ ملک مصر پر اپنا ہاتھ بڑھاتاکہ ٹڈیاں ملک مصر پر آئیں اور ہر قسم کی سبزی کو جو اِس ملک میں اولوں سے بچ رہی ہے، چٹ کر جائیں۔ پس موسیٰ نے ملک مصر پر اپنی لاٹھی بڑھائی اورخداوند نے اُس سارے دن اور ساری رات پروا آندھی چلائی اور صبح ہوتے ہوتے پروا آندھی ٹڈیاں لے آئی اور ٹڈیاں سارے ملک مصر پر چھا گئیں اور وہیں مصر کی حدود میں بسیرا کیا اور اُن کا دَل ایسا بھاری تھا کہ نہ تو اُن سے پہلے ایسی ٹڈیاں کبھی آئیں اور نہ اُن کے بعد پھر آئیں گی۔ کیونکہ اُنھوں نے تمام روے زمین کو ڈھانک لیا، ایسا کہ ملک میں اندھیرا ہو گیا اور اُنھوں نے اُس ملک کی ایک ایک سبزی کو اور درختوں کے میووں کو جو اولوں سے بچ گئے تھے، چٹ کر لیا اور ملک مصر میں نہ تو کسی درخت کی، نہ کھیت کی کسی سبزی کی ہریالی باقی رہی۔‘‘
(۱۰:۱۲-۱۵)
جوؤں کا حملہ جس طرح ہوا، اُس کی تفصیل یہ ہے:
’’تب خداوند نے موسیٰ سے کہا: ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی بڑھا کر زمین کی گرد کو مارتا کہ وہ تمام ملک مصر میں جوئیں بن جائے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ بڑھایا اور زمین کی گرد کو مارا اور انسان اور حیوان پر جوئیں ہو گئیں اور تمام ملک مصر میں زمین کی ساری گرد جوئیں بن گئی۔‘‘
(۸:۱۶-۱۷)
مینڈکوں کے عذاب کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے:
’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ فرعون کے پاس جا اور اُس سے کہہ، خداوند یوں فرماتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وہ میری عبادت کریں۔ اور اگر تو اُن کو جانے نہ دے گا تو دیکھ میں تیرے ملک کو مینڈکوں سے ماروں گا اور دریا بے شمار مینڈکوں سے بھر جائے گا اور وہ آ کر تیرے گھر میں اور تیری آرام گاہ میں اور تیرے پلنگ پر اور تیرے ملازموں کے گھروں میں اور تیری رعیت پر اور تیرے تنوروں اور آٹا گوندھنے کے لگنوں میں گھستے پھریں گے اور تجھ پر اور تیری رعیت اور تیرے نوکروں پر چڑھ جائیں گے۔ اور خداوند نے موسیٰ کو فرمایا کہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ دریاؤں اور نہروں اور جھیلوں پر بڑھا اور مینڈکوں کو ملک مصر پر چڑھا لا۔ چنانچہ جتنا پانی مصر میں تھا، اُس پر ہارون نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مینڈک چڑھ آئے اورملک مصر کو ڈھانک لیا۔‘‘
(۸:۱-۶)
خون کا عذاب جس صورت میں ظاہر ہوا، اُس کی تفصیل یہ ہے:
’’اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ ہارون سے کہہ اپنی لاٹھی لے اور مصر میں جتنا پانی ہے، یعنی دریاؤں اور نہروں اور جھیلوں اور تالابوں پر اپنا ہاتھ بڑھا تاکہ وہ خون بن جائیں اور سارے ملک مصر میں پتھر اور لکڑی کے برتنوں میں بھی خون ہی خون ہو گا۔ اور موسیٰ اور ہارون نے خداوند کے حکم کے مطابق کیا۔ اُس نے لاٹھی اٹھا کر اُسے فرعون اور اُس کے خادموں کے سامنے دریا کے پانی پر مارا اور دریا کا پانی سب خون ہو گیا اور دریا کی مچھلیاں مر گئیں اور دریا سے تعفن اٹھنے لگا اور مصری دریا کا پانی پی نہ سکے اور تمام ملک مصر میں خون ہی خون ہو گیا۔‘‘
(۷:۱۹-۲۱)