Forums › Forums › Sources of Islam › Allah Swt Has Purchased (Quran 9:111)
-
Allah Swt Has Purchased (Quran 9:111)
Posted by Ali Shaikh on July 15, 2021 at 11:06 amAssalamualaikum my question is when everything belongs to allah swt then why did allah says in Quran 9:111 that he hath purchased lives of believers??
Umer replied 3 years, 4 months ago 2 Members · 1 Reply -
1 Reply
-
Allah Swt Has Purchased (Quran 9:111)
-
Umer
Moderator July 15, 2021 at 12:16 pmإِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُوْنَ فِي سَبِيْلِ اللّهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَيُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ. التَّائِبُونَ الْعَابِدُوْنَ الْحَامِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرَّاكِعُوْنَ السَّاجِدوْنَ الْآمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُوْنَ لِحُدُودِ اللّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ.
In reality, those who have professed faith [by making a pledge with the Messenger], their person and wealth have been bought by God in return for Paradise. They fight in the way of God, slay others and are slain.[61] This is a true promise of God in the Torah, in the Gospel and in the Quran.[62] And who can be truer in fulfilling his promise than God? So rejoice on your deal that you have made with God. This is the greatest success. They are those who repent, worship, are grateful, who exert [for the cause of God], who kneel and prostrate [before Him], urge [people] to good and forbid [them] from evil and protect the bounds of God. It is they who are true believers] and [O Prophet!] give glad tidings to these believers. (Quran 9:111-112)
(Excerpt from Quranic Exegesis: Javed Ahmed Ghamidi)
(Translated by Dr. Shehzad Saleem)
________________________________________________
[61] The essence of Islam is this deal of sale. However, here it is referred to because in the presence of God’s messenger the greatest requisite of this deal is that those who believe in him become a means of God’s punishment on those who disbelieve in him and slay them even if as a consequence some of them have to lay down their lives for this. Earlier people were mentioned whose real reason for hypocrisy was abstaining from giving up their lives and wealth for the cause of God. It is thus clarified here that at this time the greatest requisite of the pledge that is made at the hands of the Prophet (sws) is waging war for the cause of God.
[62] Ie., the promise of Paradise in return for sacrificing life and wealth. In the Gospel the words “Kingdom of Heaven” are used for this. The kingdom which is gained in this world after pledging a covenant at the hands of God’s messenger is its prelude. The translators of the Torah have interpreted it to mean a country in which milk and honey flows. The reference is to Palestine which they intended to own in this world.
___________________________________________________________________________________________________________
Explanation by Amin Ahsan Islahi:
اللہ اوراہل ایمان کے مابین بیع و شرا کا معاہدہ: فرمایا کہ یہ بیعت اللہ اور اہل ایمان کے درمیان بیع و شرا کا ایک معاہدہ ہے جس میں اہل ایمان اپنے مال اور اپنی جان اللہ کے حوالے کرنے کا اقرار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں ان کے لیے جنت کا وعدہ فرماتا ہے۔ ہم دوسرے مقام میں یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ انسان کو سب سے بڑا شرف جو حاصل ہے وہ یہی ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق ہونے کے باوجود یہ درجہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بیع و شرا کا ایک معاہدہ کرتا ہے جس میں وہ اپنے اوپر بھی اسی طرح کی ایک ذمہ داری لیتا ہے جس طرح بندوں پر ایک ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا یہ شرف مبنی ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص دائرے کے اندر اس کو اختیار بخشا ہے اور یہ چاہا ہے کہ انسان اپنی مرضی سے اپنے مال و جان پر اللہ کے حق کو تسلیم کرے اور پھر اس کے عوض میں جنت کا ابدی مقام حاصل کرے۔ جان اور مال دونوں سے جہاد: ’یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ‘۔ یعنی اس معاہدۂ بیع و شرا کے بعد کوئی راست باز مسلمان اپنے مال یا اپنی جان کو خدا سے چرانے کا روادار نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ وہ اللہ کی راہ میں مال اور جان دونوں سے جہاد کرتے ہیں اور اس راہ میں مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ اگر مارتے ہیں تو غازی اور مجاہد کا درجہ حاصل کرتے ہیں اور مرتے ہیں تو شہید کا مقام پاتے ہیں۔ قربانی کے عوض جنت کا وعدہ: ’وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ‘۔ یعنی جان و مال کی قربانی کے عوض جنت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب کر رکھا ہے اور اس کا اظہار و اقرار تورات، انجیل اور قرآن سب میں ہے۔ یہ تمام آسمانی مذاہب اور خدائی صحیفوں کی ایک مسلمہ اور مشترکہ حقیقت ہے۔ مثلاً تورات میں ہے:
’’سن اے اسرائیل، خداوند ہمارا خدا اکیلا خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنے سارے جی اور اپنے سارے زور سے خداوند اپنے خدا کو دوست رکھ۔‘‘ (استثنا ۶: ۴-۵)
انجیل میں ہے:
’’جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو گا۔‘‘ (متی ۱۹: ۲۹)
انجیلوں میں جنت کی تعبیر بالعموم آسمانی بادشاہت سے کی گئی ہے۔ تورات میں یہود نے حرص کے سبب سے تمام اخروی انعامات کو دنیوی انعامات سے بدل لیا ہے تاہم انبیاء کی تعلیمات میں بکثرت ابدی زندگی کے ابدی انعامات کا ذکر موجود ہے۔ حیات چند روزہ کے بدلے ابدی زندگی کی بادشاہی: ’وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ‘۔ یہ ابھارا گیا ہے اللہ کی راہ میں بے خوف و خطر جان و مال کی قربانیاں پیش کرنے پر۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے تو جو سودا تم اس کے ساتھ کر چکے ہو اس پر تمہیں باغ باغ ہونا چاہیے۔ خدا کے ہاتھ جو بیچ چکے ہو وہ اس کی طلب پر اس کے حوالے کرو اور جو کچھ اس کے عوض میں تمہیں ملنا ہے اس کے لیے تیار رہو۔ اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ خدا کی جنت بڑی چیز ہے۔ یہ کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے، بلکہ چند روزہ حیات کے بدلے ابدی زندگی کی بادشاہی ہے۔
Sponsor Ask Ghamidi