I recommend you to read the whole article of mine of which took this extract in response to your question.
https://irfanshehzad.com/2021/01/28/%D8%AD%D8%B1%DB%8C%D8%AA-%D9%81%DA%A9%D8%B1-%DA%A9%DB%92-%D8%AF%D9%88-%D8%B9%D9%84%D9%85-%D8%A8%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D9%85%D9%88%D8%B3%DB%8C%D9%B0-%D8%A7%D9%88%D8%B1/
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاغذ و قلم طلب فرمایا کہ ایسا کچھ لکھوا دیں کہ آپ کے بعد آپ کے پیروکارگم راہ نہ ہوں گے۔ اس موقع پر حضرت عمر نے نہایت جرأت مندانہ راے دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت، کامل طریقے سے قرآن کی صورت میں پہنچا دی ہے تو مزید کسی چیز کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ اس وقت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت اچھی نہیں، اس حالت میں آپ کو لکھوانے کی زحمت دینا شاید مناسب نہ ہو، مبادا کوئی غلطی ہو جائے۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید ہر طرح سےکافی ہے۔ اس پر صحابہ کے درمیان بحث ہوگئی، کچھ نے حضرت عمر کی مخالفت کی اور کچھ نے ان کی تائید کی۔ آوازیں بلند ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار گزرا اور آپ نے سب کو باہر چلے جانے کا کہہ دیا۔ اس واقعہ کے بعد بھی رسول اللہ کئی دن حیات رہے، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہ لکھوایا جس کا عندیہ آپ نے پہلے دیا تھا۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی وقتی کیفیت تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لکھوانا چاہا، مگر جب آپ کی طبیعت بحال ہوگئی تو آپ نے بھی ایسی کوئی بات بتانا ضروری نہیں سمجھا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ایک رسول کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری تھی کہ آپ ہر وہ بات امت کو پہنچاکر دنیا سے رخصت ہوں جو ان کی رسالت کا تقاضا اور امت کی ہدایت کے لیے ضروری تھی۔ یہ چیز قرآن میں واضح طور پر بتائی گئی ہے:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ.(المائدہ ۵: ۶۷)
’’اے پیغمبر، (اور) جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ (اِنھیں) پہنچا دو اور (یاد رکھو کہ) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اُس کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اللہ اِن لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا۔ (تم مطمئن رہو) ، اللہ (تمھارے مقابلے میں تمھارے) اِن منکروں کو ہرگز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا۔‘‘
یہ ممکن نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کی ہدایت کے لیے کوئی ضروری بات بتانے سے محض اس وجہ سے رک گئے کہ کچھ صحابہ نے اس وقت لکھوانا مناسب نہ جانا تھا۔ ممکن ہے وہ ایسی ہی کوئی بات ہوتی جس میں قرآن و سنت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی نصیحت ہوتی۔ بہرحال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد کا طرز عمل بتاتا ہے کہ حضرت عمر کی حریتِ فکر نے یہاں بھی درست طرزِ عمل اختیار کیا اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں لکھوائی۔