Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islam And State حضرت علی اور امیر معاویہ سیریز سے متعلق چند سوالات

  • حضرت علی اور امیر معاویہ سیریز سے متعلق چند سوالات

    Posted by Arsalan Riaz on October 27, 2021 at 3:12 am

    غامدی صاحب نے فرمایا کہ حضرت عثمان کے قتل کے وقت کوئی ایسا دستور موجود نہیں تھا جس کے تحت پر امن انتقال اقتدار ہو سکتا۔ صرف تلوار ہی واحد حل تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت بہت سے جلیل القدر صحابہ دنیا میں موجود تھے۔ خود ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بھی مدینہ میں موجود تھیں۔ سب سے اہم بات کہ قرآن مجید موجود تھا جو کہ بذات خود ایک دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ امرھم شوریٰ بینھم کا قانون بھی واضح تھا۔ اس سب کے باوجود صحابہ کرام نے پرامن طریقے سے اپنے اختلافات کا حل کیوں نہیں نکالا؟ حضرت عائشہ کو حضرت علی سے جنگ کیوں کرنی پڑی؟ کیا اس کی وجہ ان دونوں شخصیات کی ایک دوسرے کو ناپسند کرنا نہیں تھا؟ بنو امیہ اور بنو ہاشم میں بھی پرانی چپقلش تھی جو زمانہ جاہلیت سے موجود تھی۔ بنو امیہ کو بھی شاید اس وجہ سے حضرت علی کا اقتدار میں آنا قابل قبول نہیں تھا۔ حضرت علی کو بھی 25 سال تک اقتدار سے دور رکھا گیا تھا اور یہ بہترین موقع تھا کہ وہ اقتدار سنبھالتے اور اپنے تمام دشمنوں سے بدلہ لیتے۔ غامدی صاحب نے ان سب باتوں کو رد کیوں کیا ہے جبکہ یہ تاریخی حقائق ہیں۔

    Dr. Irfan Shahzad replied 3 years ago 3 Members · 5 Replies
  • 5 Replies
  • حضرت علی اور امیر معاویہ سیریز سے متعلق چند سوالات

    Dr. Irfan Shahzad updated 3 years ago 3 Members · 5 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar October 27, 2021 at 5:33 am

    قبائلی نظام میں خواتین کا سیاسی امور فیصلہ کن کردار نہیں تھا۔

    قران کا اصول موجود تھا مگر اسے لاگو کرنے میں بہت سے زمینی حقائق شامل ہوتے ہیں۔ قریش اور انصار کے نمائندے حضرت عثمان کے بعد بدلے ہوئے حالات میں موثر نہیں رہے تھے ۔ جن چھے لوگوں میں یہ امر خلافت منحصر تھا جن پر مجلس شوریٰ حضور عمر نے تشکیل دی تھی ان میں حضرت عبد الرحمان وفات پا گئے تھے، حضرت سعد نے سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کر لیا تھا, حضرت طلحہ و زبیر حضرت علی کی حکومت سے باہر کر دیے گئے تھے اور معاملات قاتلین کے ہاتھ میں آگئے تھے اس لیے وہ بھی اپنی کوشش کرنے کے لیے الگ ہو گئے تھے۔ گویا مجلس شوریٰ عملا غیر موثر کو چکی تھی۔ اتفاق راے کا کوئی امکان نہیں رہا تھا۔

    دوسری بات یہ کہ حضرت علی سے جنگ نہیں کی تھی۔ ان کا حملہ بصرہ پر تھا جو ان باغیوں کا گڑھ تھا۔ حضرت علی خود آگے بڑھ کر ان پر حملہ اور ہوئے تھے۔ اسی طرح صفین کی جنگ بھی حضرت علی نے شروع کی تھی۔ معاویہ جنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہ رکھتے تھے۔

    حضرت علی کو کسی کی اقتدار سے دور نہین رکھا۔ حضرت ابو ابکر اور عمر جیسی بزرگ شخصیات کے ہوتے کسی اور پر مسلماں اکھٹے نہیں ہو سکتے تھے۔ حضرت عمر نے حضرت علی کو سیاسی امور میں خود شریک کیا ۔ جب وہ مدینہ چھوڑ کر جاتے تو علی کو نائب بنا کر جاتے۔ انتخاب عثمان کے وقت لوگوں سے پوچھا گیا تھا ۔ حضرت عثمان کو لوگون نے چنا تھا۔

  • Arsalan Riaz

    Member October 27, 2021 at 8:12 am

    صفین کی جنگ میں تو حضرت علی کا حملہ کرنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو خلیفہ برحق سمجھتے تھے اور لوگوں کی ایک بڑی جماعت نے ان کے ہاتھ پہ بیعت بھی کر لی تھی۔ لیکن حضرت عائشہ نے کس حیثیت میں بصرہ کا رخ کیا ؟ جب عورتوں کا سیاسی رول نہیں تھا تو انہیں کیا ضرورت تھی حضرت طلحہ و زبیر کے ساتھ بصرہ جانے کی؟ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت تو انہوں نے سیاسی معاملات سے لا تعلقی کرتے ہوئے مدینہ چھوڑ دیا اور مکہ حج کرنے روانہ ہو گئیں۔

  • ABDULLAH Malik

    Member October 27, 2021 at 7:40 pm

    Below hadith please read it .

  • ABDULLAH Malik

    Member October 27, 2021 at 7:47 pm
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar October 27, 2021 at 8:55 pm

    میں نے عرض کیا کہ خواتین کا فیصلہ کن کردار سیاسی امور میں نہ تھا۔ زور فیصلہ کن پر ہے۔ سیاسی کردار کی نفی نہیں کی گئی۔ حالات جب حضرت عائشہ سمیت کسی کے قابو میں نہیں رہے تھے تو حضرت علی بھی گھر جا بیٹھے تھے اور حضرت عائشہ مکہ چلی گئی تھیں۔

    حضرت عثمان لڑنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد حضرت طلحہ س زبیر نے کوشش کی کہ باغیوں سے حکومت کو آزاد کرایا جاہے۔ اس میں حضرت عائشہ نے اپنا کردار ادا کیا۔

    حضرت علی اگر باغیوں کے ساتھ بصرہ نہ پہنچ جاتے تو امید کی جا سکتی تھی کہ باغیوں کو پیچھے دھکیلا کا سکتا تھا۔

You must be logged in to reply.
Login | Register