Please see below, it’s taken from Ghamidi Sb’s Al Bayan weblink:
https://www.javedahmedghamidi.org/#!/quran?chapter=17¶graph=3&type=Ghamidi
بنی اسرائیل کو ہم نے اِسی کتاب میں اپنے اِس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا [119] کہ تم ضروردو مرتبہ زمین میں فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ [120] گے، (لہٰذا دونوں مرتبہ سخت سزا پاؤ گے)۔
جاوید احمد غامدی
119 اصل الفاظ ہیں: ’وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ‘۔ اِن میں ’قَضَیْنَا‘ کے بعد ’اِلٰی‘ کا تقاضا ہے کہ اُسے کسی ایسے فعل پرمتضمن مانا جائے جو اِس صلہ سے مناسبت رکھنے والا ہو۔ یہ ’أبلغنا‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی فعل ہو سکتا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
120 یعنی خدا کے مقابلے میں سرکشی دکھاؤ گے اور اُس کی شریعت سے بغاوت کردو گے۔ قرآن میں لفظ ’فَسَاد‘ اِس مفہوم کے لیے بھی آیا ہے۔ اِس کے بعد ’فنعذبکم مرتین‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ آیت میں حذف ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات بالکل واضح بھی تھی اور آگے جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ بھی اِسی پر دلالت کررہا تھا۔ تورات میں یہ تنبیہ اور اِس کے نتیجے میں ملنے والی سزا کی تفصیلات استثنا کے باب ۲۸ میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
’’۔۔۔اور چونکہ تو باوجود سب چیزوں کی فراوانی کے فرحت اور خوش دلی سے اپنے خدا کی عبادت نہیں کرے گا، اِس لیے بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے دشمنوں کی خدمت کرے گا، جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جو آ رکھے رہے گا، جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے۔ خداوند دور سے، بلکہ زمین کے کنارے سے ایک قوم کو تجھ پر چڑھا لائے گا جیسے عقاب ٹوٹ کر آتا ہے۔ اُس قوم کی زبان کو تو نہیں سمجھے گا۔ اُس قوم کے لوگ ترش رو ہوں گے جو نہ بڈھوں کا لحاظ کریں گے نہ جوانوں پر ترس کھائیں گے۔ اور وہ تیرے چوپایوں کے بچوں اور تیری زمین کی پیداوار کو کھاتے رہیں گے، جب تک تیرا ناس نہ ہو جائے۔ اور وہ تیرے لیے اناج یا مے یا تیل یا گاے بیل کی بڑھتی یا تیری بھیڑ بکریوں کے بچے کچھ نہیں چھوڑیں گے، جب تک وہ تجھ کو فنا نہ کر دیں۔ اور وہ تیرے تمام ملک میں تیرا محاصرہ تیری ہی بستیوں میں کیے رہیں گے، جب تک تیری اونچی اونچی فصیلیں جن پر تیرا بھروسا ہوگا، گر نہ جائیں۔ تیرا محاصرہ وہ تیرے ہی اُس ملک کی سب بستیوں میں کریں گے جسے خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے۔‘‘
(۴۷-۵۲)
’’۔۔۔اور چونکہ تو خداوند اپنے خدا کی بات نہیں سنے گا، اِس لیے کہاں تو تم کثرت میں آسمان کے تاروں کی مانند ہو اور کہاں شمار میں تھوڑے ہی سے رہ جاؤ گے۔ تب یہ ہو گا کہ جیسے تمھارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوند خوشنود ہوا، ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کر ڈالنے سے خداوند خوشنود ہوگا اور تم اُس ملک سے اکھاڑ دیے جاؤ گے، جہاں تو اُس پر قبضہ کرنے جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا۔‘‘
(۶۲-۶۴)
اِس کے بعد بنی اسرائیل کے انبیا اُنھیں متنبہ کرتے رہے۔ چنانچہ پہلے فساد پر اُن کی تنبیہات زبور، یسعیاہ، یرمیا اور حزقی ایل میں اور دوسرے فساد پر سیدنا مسیح علیہ السلام کی زبان سے متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہیں۔