Forums › Forums › General Discussions › Conflict Between Hazrat Ali (rta) And Hazrat Ameer Muawiya (rta)
Tagged: Ahl-e-Bait, Muslims, Sahaba, Sects
-
Conflict Between Hazrat Ali (rta) And Hazrat Ameer Muawiya (rta)
Posted by Saiyed juned Alimiya on November 15, 2021 at 3:58 amGamdi sir ka part 1 ro 18 tak suna bohot jayada nafs mutmain huwa, lekin sawal ye he ki itne bade sinario ko kya samje? Allahki aazmayas ya waqt ka takaza ya na jaane kya kuch mind me aata he?? Islam ke context me kya hedig de, human natural tendency for polytics etc????
ABDULLAH Malik replied 2 years, 11 months ago 3 Members · 6 Replies -
6 Replies
-
Conflict Between Hazrat Ali (rta) And Hazrat Ameer Muawiya (rta)
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar November 15, 2021 at 4:09 amاس پر عام بھی غور کیجیے۔ بہت سے نفسیاتی اور سماجی عوامل شامل ہوتے ہیں۔
-
Saiyed juned Alimiya
Member November 16, 2021 at 6:55 amEEk rivayat ke mutabik jab muaviya radi ne yasid ko naamzad kiya to abubakkar radi ke bete ya Abdullah bin umar ne kaha ki ye to kesaro kisara ki rivayat he means mulukiyat is ki bina par kya yu keh sakte he ke democracy ka kuch idea kuch logo tha lekin wo ho na saka
-
ABDULLAH Malik
Member December 7, 2021 at 9:26 amSahih Bukhari – 4108
کتاب:کتاب غزوات کے بیان میں
باب:غزوہخندق کا بیان جس کا دوسرا نام غزوہاحزاب ہے ۔
ARABIC:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى , أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ : وَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى حَفْصَةَ وَنَوْسَاتُهَا تَنْطُفُ , قُلْتُ : قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ مَا تَرَيْنَ فَلَمْ يُجْعَلْ لِي مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ , فَقَالَتْ : الْحَقْ فَإِنَّهُمْ يَنْتَظِرُونَكَ وَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ فِي احْتِبَاسِكَ عَنْهُمْ فُرْقَةٌ , فَلَمْ تَدَعْهُ حَتَّى ذَهَبَ فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ خَطَبَ مُعَاوِيَةُ , قَالَ : مَنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ فِي هَذَا الْأَمْرِ فَلْيُطْلِعْ لَنَا قَرْنَهُ فَلَنَحْنُ أَحَقُّ بِهِ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ , قَالَ حَبِيبُ بْنُ مَسْلَمَةَ : فَهَلَّا أَجَبْتَهُ , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : فَحَلَلْتُ حُبْوَتِي وَهَمَمْتُ أَنْ أَقُولَ أَحَقُّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْكَ مَنْ قَاتَلَكَ وَأَبَاكَ عَلَى الْإِسْلَامِ , فَخَشِيتُ أَنْ أَقُولَ كَلِمَةً تُفَرِّقُ بَيْنَ الْجَمْعِ وَتَسْفِكُ الدَّمَ وَيُحْمَلُ عَنِّي غَيْرُ ذَلِكَ , فَذَكَرْتُ مَا أَعَدَّ اللَّهُ فِي الْجِنَانِ , قَالَ حَبِيبٌ : حُفِظْتَ وَعُصِمْتَ . قَالَ مَحْمُودٌ : عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ : وَنَوْسَاتُهَا .
TRANSLATION:
مجھے عبداللہ بن طاؤس نے خبر دی ‘ ان سے عکرمہ بن خالد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو ان کے سر کے بالوں سے پانی کے قطرات ٹپک رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگوں نے کیا کیا اور مجھے تو کچھ بھی حکومت نہیں ملی۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مسلمانوں کے مجمع میں جاؤ ‘ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا موقع پر نہ پہنچنا مزید پھوٹ کا سبب بن جائے۔ آخر حفصہ رضی اللہ عنہا کے اصرار پر عبداللہ رضی اللہ عنہ گئے۔ پھر جب لوگ وہاں سے چلے گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اور کہا کہ خلافت کے مسئلہ پر جسے گفتگو کرنی ہو وہ ذرا اپنا سر تو اٹھائے۔ یقیناً ہم اس سے زیادہ خلافت کے حقدار ہیں اور اس کے باپ سے بھی زیادہ۔ حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس پر کہا کہ آپ نے وہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے اسی وقت اپنے لنگی کھولی ( جواب دینے کو تیار ہوا ) اور ارادہ کر چکا تھا کہ ان سے کہوں کہ تم سے زیادہ خلافت کا حقدار وہ ہے جس نے تم سے اور تمہارے باپ سے اسلام کے لیے جنگ کی تھی۔ لیکن پھر میں ڈرا کہ کہیں میری اس بات سے مسلمانوں میں اختلاف بڑھ نہ جائے اور خونریزی نہ ہو جائے اور میری بات کا مطلب میری منشا کے خلاف نہ لیا جانے لگے۔ اس کے بجائے مجھے جنت کی وہ نعمتیں یاد آ گئیں جو اللہ تعالیٰ نے ( صبر کرنے والوں کے لیے ) جنت میں تیار کر رکھی ہیں۔ حبیب ابن ابی مسلم نے کہا کہ اچھا ہوا آپ محفوظ رہے اور بچا لیے گئے ‘ آفت میں نہیں پڑے۔ محمود نے عبدالرزاق سے ( نسواتها. کے بجائے لفظ ) ونوساتها. بیان کیا ( جس کے معنی چوٹی کے ہیں جو عورتیں سر پر بال گوندھتے وقت نکالتی ہیں ) ۔
-
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar November 16, 2021 at 7:30 amبہت لوگوں میں یہ خیال موجود تھا مگر حالات وہ نہیں رہے تھے کہ اس پر عمل کیا جاتا۔ تین مختلف سیاسی مراکز قائم ہو چکے تھے ۔ حجاز ، کوفہ اور شام۔ مشاورت کی صورت میں یہ کسی ایک شخصیت پر متفق نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کا نتیجہ خانہ جنگی نکلنا تھا جو ایک سطح تک کوئی بھی مگر پھر اس پر قابو پا لیا گیا۔
-
Saiyed juned Alimiya
Member November 16, 2021 at 7:40 amAAli radi ne capital madina se kuda kyo kiya tha halake hijaaz me unki makbuliyat jyada honi chahiye thi
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar November 17, 2021 at 4:59 amاس کوئی وجہ حضرت علی سے منقول تو علم میں نہیں آ سکی۔ تاہم، ان کے ساتھ حکومت مین جو قاتلین عثمان شریک ہوگئے تھے وہ کوفہ بصرہ اور فسطاط (مصر) سے آئے تھے۔ یہی لوگ حضرت علی کو کوفہ لے گئے جو ان کا گڑھ تھا۔ حجاز والوں کو ان لوگوں نے حکومت سے باہر کروا دیا تھا۔
Sponsor Ask Ghamidi