وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾ وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾
اور نفس اور جیسا اُسے [2] سنوارا،
پھر اُس کی بدی اور نیکی اُسے سجھا [3] دی
(کہ روز قیامت شدنی [4] ہے، اِس لیے) فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔
اور نامراد ہوا وہ جس نے اُسے آلودہ کر [5] ڈالا۔
(Quran 91:7-10)
(Al-Bayan: Javed Ahmed Ghamidi)
_____________________________
[5]. ہ نتیجہ ہے جس کے لیے قیامت برپا کی جائے گی۔ انبیا علیہم السلام جس چیز کی دعوت دیتے ہیں، وہ یہی تزکیہ ہے جس کے حاملین کو اِن آیتوں میں فلاح کی بشارت دی گئی ہے۔ انبیا کی ہدایت میں غایت اور مقصود کی حیثیت اِسی کو حاصل ہے۔ اِس کے معنی کسی چیز کو آلایشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی۔ چنانچہ جو لوگ اپنے نفس کو فجور سے پاک کر لیں اور اُس کو ابھار کر معرفت الٰہی کے اُس درجے تک پہنچا دیں جسے قرآن نے نفس مطمئنہ سے تعبیر کیا ہے، اُن کے لیے اُن کے پروردگار کی طرف سے فلاح کی ضمانت ہے۔ دین اصلاً اِسی مقصود کو پانے اور اِسی غایت تک پہنچنے میں انسان کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ وہ لوگوں کے لیے داروغہ بن کر اُن پر خدائی فوج داروں کی حکومت قائم کر دینے کے لیے نازل نہیں کیا گیا۔