جی ہاں۔ اس کی نفی تو کہیں نہیں کی گئی کہ نماز میں کرنا ہے تو اس کے باہر نہیں کرنا۔
ذکر کو لیکن نماز کی صورت میں لازم کر دیا گیا ہے۔ آدمی کی مرضی پر چھوڑ دیں تو بہت سے لوگ غافل ہی ہو جائیں گے۔ خدا اپنے بندوں سے واقف ہے اس لیے اس نے اپنے لازمی ذکر کے لیے پانچ وقت کی نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔
یہ نماز کا مقصد ہے کہ خدا کے ذکر کے لیے اسے قائم کیاجائے۔ نماز کی حقیقت البتہ انسان کی پرستش کا جذبہ ہے جسے خدا نے نماز کی صورت دی ہے۔ برائی سے روکنا اس کا ایک فائدہ ہے۔
تنیوں چیزوں کا الگ الگ کرنا چاہیے۔
یعنی
1 نماز کی حقیقت، خدا کی پرستش
2۔ نماز کا مقصد، خدا کا ذکر
3۔ نماز کا فائدہ برائیوں سے رکنا۔
برائیوں سے کوئی شخص اگر نماز کے علاوہ بھی رکتا ہے تو اس سے نماز غیر اہم نہیں ہو جاتی ہے۔ اس کی حقیقت اور مقصد اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ نیز نماز کی اہمیت ہر ہر فرد پر اس کے اثرات سے طے نہیں کریں گے اس طرح کوئی بھی عبادت مقرر نہیں کی جا سکتی ۔ کچھ لوگ نماز کی وجہ سے برائیوں سے رکتے ہیں، کچھ کو برائیوں سے رکنے میں اس سے مدد ملتی ہے اور کچھ نہیں رکتے اور کچھ اس کے بغیر بھی رکتے ہین۔ نماز افراد کی کیفیات پر منحصر نہیں۔