Forums › Forums › General Discussions › شاکلہ کیا ہے
-
شاکلہ کیا ہے
Posted by Muhammad Asaad on September 9, 2022 at 7:15 amالسلام علیکم
سورت الإسراء آیت نمبر 84 میں شاکلہ کا بیان ہوا ہے اب تک جتنا اس کے بارے پڑھا ہے اس میں میرے لیے پیچیدگی پڑھتی ہی گئی یے براہ کرم اس کا مفہوم واضح کردیں
Muhammad Asaad replied 2 years, 3 months ago 2 Members · 7 Replies -
7 Replies
-
Ahsan
Moderator September 9, 2022 at 9:41 amشَاکِلَتِہٖ کا مطلب روش یا عادت کے ہیں . اس میں سمجھ میں نہ آنے والی کیا بات ہے؟
غامدی سب لکھتے ہیں
ہ تفویض کی آیت ہے، گویا ہدایت فرمائی ہے کہ موقف حق پر جمے رہو اور اِن کا معاملہ اللہ کے حوالے کر دو۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے کون سیدھے راستے پر ہے۔
-
Muhammad Asaad
Member September 9, 2022 at 9:43 amاس کا استعمال
کیا لوگوں کو ان کے ماحول کے مطابق جو عادات بنی ہیں ان کی بنیاد پر احتساب ہوگا؟؟؟
-
-
Ahsan
Moderator September 9, 2022 at 9:45 amاس آیات کا قطعی یہ مطلب نہیں نکلتا
-
Muhammad Asaad
Member September 9, 2022 at 10:01 amمعذرت سر لیکن آپ وضاحت نہیں کررہے۔۔ضمنی پہلو نکال رہے ہیں
اگر کوئی تحریر موجود ہو تو براہ کرم بھیج دیں
-
-
Ahsan
Moderator September 9, 2022 at 4:25 pmGhamidi sb write for verse 83-84 following.
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ جب ہم اُس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا اور پہلو بدل لیتا ہے [213] اور جب اُس کو مصیبت پہنچتی ہے تو بالکل مایوس ہو جاتا ہے۔
(اِن کا حال بھی یہی ہے، اِس لیے) کہہ دو کہ ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کر رہا ہے۔ سو تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے اُنھیں جو ٹھیک سیدھے راستے پر [214] ہیں
213 پہلو بدل لینا اعراض کی تصویر ہے جس کے لیے آیت میں ’نَاٰبِجَانِبِہٖ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے اعراض میں نفرت، بے زاری اور غرور و تکبر کا انداز نمایاں ہوتا ہے۔
214 یہ تفویض کی آیت ہے، گویا ہدایت فرمائی ہے کہ موقف حق پر جمے رہو اور اِن کا معاملہ اللہ کے حوالے کر دو۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں سے کون سیدھے راستے پر ہے۔
۔
-
Ahsan
Moderator September 9, 2022 at 4:26 pmMolana Islahi sb write for verse 83-84 following
اور انسان پر جب ہم اپنا انعام کرتے ہیں تو وہ اعراض کرتا اور پہلو بدل لیتا ہے اور جب اس کو مصیبت پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔کہہ دو کہ ہر ایک اپنی روش پر کام کرے گا تو تمہارا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو صحیح تر راستہ پر ہیں۔
’اَلْاِنْسَان‘ کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں اس سے مراد قریش کے وہی اشرار و مفسدین ہیں جن کا کردار یہاں زیربحث ہے۔ انھوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول سے متکبرانہ اعراض کی روش اختیار کی، جیسا کہ ’اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ‘ کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے منہ پھیر کر عام صیغہ سے بات فرما دی۔ ’اَعْرَضَ‘ کے بعد ’وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ‘ کے الفاظ سے ان کے اعراض کی تصویر سامنے آ رہی ہے۔ کسی چیز سے اعراض شائستہ انداز میں بھی ہو سکتا ہے لیکن جب انسان نفرت، بیزاری اور غرور کے انداز میں کسی چیز سے اعراض کرتا ہے تو وہ پہلو بدل لیتا اور مونڈھے پھیر لیتا ہے۔ فرمایا کہ انسان کا عجیب حال ہے۔ جب ہم اس پر اپنا فضل و انعام کرتے ہیں تب وہ ہم سے اکڑتا اور سرکشی کرتا ہے لیکن اس کے اعمال کی پاداش میں جب ہم اس کو کسی مصیبت میں گرفتار کر لیتے ہیں تو وہ دل شکستہ اور مایوس ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اس کے لیے صحیح روش یہ تھی کہ ہمارے انعام پر ہمارا شکر گزار ہوتا اور کوئی آزمائش پیش آتی تو اس پر صبر کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ یہی حال ہے تمہارے ان مخالفین کا۔ ہم نے ان کو اپنے فضل سے نوازا ہے تو ان کے غرور کا یہ حال ہے کہ تمہارے دعوت و تذکیر پر تم سے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اگر ہم نے ان کو دھر لیا تو پھر سارا نشہ ہرن ہو جائے گا اور یاس و نامرادی کی تصویر بن کر رہ جائیں گے۔
لفظ ’کل‘ اگرچہ نکرہ ہے لیکن بعض مواقع میں، جیسا کہ اس کے محل میں ہم واضح کر چکے ہیں، یہ معرفہ کے حکم میں ہو جاتا ہے یعنی اس سے وہی جماعتیں یا اشخاص مراد ہوتے ہیں جن کا ذکر اوپر سے چلا آ رہا ہوتا ہے۔ معاملہ اللہ کے حوالہ کرنے کی ہدایت: ’شَاکِلَۃ‘ کے معنی طریقہ کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے کہہ دو کہ اگر تم میری بات سننے پر آمادہ نہیں ہو تو تم اپنی روش پر گامزن رہو گے اور میں بہرحال اپنی دعوت پر قائم رہوں گا۔ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ سیدھے راستے پر کون ہے، اپنے زعم کے مطابق تم یا میں اور میرے ساتھی۔ آگے آنے والے حالات بتا دیں گے کہ منزل پر کون پہنچتا ہے۔ یہ آیت گویا تفویض کی آیت ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت ہوئی کہ تم ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ کرو اور خود اپنے موقف حق پر ڈٹے رہو۔
-
Muhammad Asaad
Member September 9, 2022 at 9:20 pmجزاکم اللہ
❤
-
Sponsor Ask Ghamidi