Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islamic Sharia اسلام میں قتل کی سزا کن جرائم پر دی جاتی ہے ؟

  • اسلام میں قتل کی سزا کن جرائم پر دی جاتی ہے ؟

    Posted by Aejaz Ahmed on October 10, 2022 at 6:06 am

    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

    مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ۔ 5:32* المائدہ

    اس آیت کی روشنی میں برائے مہربانی اس حدیث کی وضاحت کریں کہ ایک عورت سے زنا سرزد ہوگیا تو وہ رسول اکرمﷺ کے پاس پنے اوپر حد جاری کروانے کے لئے آئی یا لائی گئی تو وہ امید سے تھی پھر بعد میں اس کو سنگسار کیا گیا۔

    زنا پر یہ سزا کیوں دی گئی جبکہ قرآن میں صرف دو صورتوں پر قتل کی سزا کا حکم ہے ؟؟

    اس حدیث کے سند کی بھی وضاحت کر دیں۔

    اسلام میں قتل کی سزا کن کن جرائم پر دی جا سکتی ہے ؟؟

    جزاک اللہ

    Aejaz Ahmed replied 2 years, 1 month ago 2 Members · 4 Replies
  • 4 Replies
  • اسلام میں قتل کی سزا کن جرائم پر دی جاتی ہے ؟

    Aejaz Ahmed updated 2 years, 1 month ago 2 Members · 4 Replies
  • Faisal Haroon

    Moderator October 10, 2022 at 1:34 pm

    Please share a reference to the hadith narration in question.

  • Aejaz Ahmed

    Member October 16, 2022 at 5:51 am

    170 / 5. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ: فَجَائَ الْغَامِدِيَةُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ فَطَهِرْنِي، وَإِنَّه رَدَّهَا، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لِمَ تَرُدُّنِي؟ لَعَلَّکَ أَنْ تَرُدَّنِي کَمَا رَدَدْتَ مَاعِزًا، فَوَاللهِ، إِنِّي لَحُبْلٰی، قَالَ: إِمَّا لَا، فَاذْهَبِي حَتّٰی تَلِدِي، فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي خِرْقَةٍ قَالَتْ: هٰذَا قَدْ وَلَدْتُه، قَالَ: اذْهَبِي، فَأَرْضِعِيْهِ حَتّٰی تَفْطِمِيْهِ، فَلَمَّا فَطَمَتْهُ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي يَدِه کِسْرَةُ خُبْزٍ فَقَالَتْ: هٰذَا يَا نَبِيَّ اللهِ، قَدْ فَطَمْتُه وَقَدْ أَکَلَ الطَّعَامَ، فَدَفَعَ الصَّبِيَّ إِلٰی رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا إِلٰی صَدْرِهَا وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوْهَا، فَيُقْبِلُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ بِحَجَرٍ فَرَمٰی رَأْسَهَا فَتَنَضَّحَ الدَّمُ عَلٰی وَجْهِ خَالِدٍ فَسَبَّهَا، فَسَمِعَ نَبِيُّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم سَبَّه إِيَاهَا فَقَالَ: مَهْـلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَه، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَصَلّٰی عَلَيْهَا وَدُفِنَتْ…الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ.

    5: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسه بالزنی، 3 / 1323، الرقم: (2) 1695، وأبو داود في السنن،کتاب الحدود، باب المرأة التي أمر النبي صلی الله عليه وآله وسلم برجمها من جهينة، 4 / 152، الرقم: 4440، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 304، الرقم: 7271، والدارمي في السنن، 2 / 234، الرقم: 2324، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 348، الرقم: 22999، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 543، الرقم: 28809، وأبو عوانة في المسند، 4 / 136137، الرقم: 6295، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 221، الرقم: 16743.

    ’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ (ماعز بن مالک کے قصہ توبہ کے بعد) بیان کرتے ہیں: اِس کے بعد ایک غامدیہ عورت آئی اور عرض کرنے لگی: یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے واپس بھیج دیا، دوسرے دن آ کر اُس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے کیوں واپس کر دیا؟ شاید آپ مجھے ماعز کی طرح واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن خدا کی قسم! میں زنا سے حاملہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا، اگر ایسا ہے تو پھر ابھی نہیں، واپس جاؤ اور بچہ پیدا ہونے کے بعد آنا، بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ عورت اُس بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی اورعرض کیا: لیجئے، یہ میرا بچہ پیدا ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جاؤ جا کر اِسے دودھ پلاؤ، حتی کہ اِس کی مدتِ رضاعت ختم ہو جائے، جب بچے کی مدتِ رضاعت ختم ہو گئی تو وہ اُسے اِس حال میں لے کر آئی کہ اُس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اُس نے عرض کیا: لیجئے! یا نبی اللہ! اِس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور اب یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بچہ ایک مسلمان شخص کے حوالے کیا، اور حکم دیا کہ اُس عورت کے لئے سینہ تک ایک گڑھا کھود اجائے، اور لوگوں کو اُسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اُس کے سر پر پتھر مارا، جس سے خون حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے منہ پر گرا، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اُس عورت کو برا بھلا کہا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں برا بھلا کہتے ہوئے سن لیا، اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے خالد، ایسا نہ کہو، اِس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر (ظلماً) خراج لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اُسے بخش دیا جاتا، پھر آپ نے اُس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں حکم دیا اور اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور پھر اُسے دفن کر دیا گیا۔‘‘

    اِس حدیث کو امام مسلم، ابو داود، نسائی، دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

  • Faisal Haroon

    Moderator October 16, 2022 at 3:22 pm

    This was a case of prostitution. The Prophet (sws) while deciding the fate of such criminals said that they were not merely guilty of fornication but were also guilty of spreading disorder in the society.

    For details please see:

    Discussion 27167

  • Aejaz Ahmed

    Member October 17, 2022 at 4:59 am

    Thanks a lot Sir Faisal Haroon sb

You must be logged in to reply.
Login | Register