Forums › Forums › Islamic Sharia › Calculation Wise Procedure Of Inheritance Distribution
Tagged: Inheritance
-
Calculation Wise Procedure Of Inheritance Distribution
Posted by Abu on November 29, 2022 at 10:29 amاگر مرنے والے کے دونوں والدین ، اسکی بیوی اور بچے بھی موجود ہیں تو پہلے حصہ والدین کا نکالنا ہے یا بیوی کا، غامدی صاحب کے طریقہ کار کے مطابق ؟
شکریہ!
Dr. Irfan Shahzad replied 1 year, 7 months ago 2 Members · 3 Replies -
3 Replies
-
Calculation Wise Procedure Of Inheritance Distribution
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar November 29, 2022 at 10:11 pmوالدین اور ازواج دونوں کے حصے کل ترکے سے نکالے جائیں گے۔ باقی ترکے کو اولاد میں تقسیم کیا جائے گا۔ لڑکے کا حصہ لڑکی سے دو گنا ہوگا۔
آپ درج ذیل لنک پر زکوۃ کلکیولیٹر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
-
Abu
Member May 18, 2023 at 2:43 pmمحترم قرآن کہتا ہے کہ اگر اولاد نہ ہو تو والدہ کا حصہ ایک تہائی ہے، اور والد کے متعلق خاموش ہے لیکن جہاں تک میں غامدی صاحب کی رائے سمجھا ہوں، دو تہائی حصہ والد کا ہوگا۔
ساتھ ہی مرنے والے کی بیوی ہو تو اولاد نہ ہونے کی صورت میں اسے ایک چوتھائی حصہ دینا ہوگا
مثلاً کل 100 روپئے ہوں تو 1/3 والدہ کا، 2/3 والد کا، پیچھے تو کچھ بچتا ہی نہیں ہے ، پھر بیوہ کو کہاں سے 1/4 دیں گے ، یوں تو غامدی صاحب کی کردہ تقسیم کے مطابق بھی وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔
میں نے اس اپلیکشن میں موجود کیلکولیٹر استعمال کیا تو اس نے بیوہ کا پچیس فیصد یعنی 1/4 ہی کیا، جبکہ بقایا میں سے ایک تہائی والدہ کا اور دو تہائی والد کا۔
اگر “کل” میں سے والدین اور بیوہ کا حصہ نکالا جائے تو نتیجہ کے اعتبار سے بیوہ کو بھی 1/4 دیا ہے اور والدہ کو بھی 1/4, جبکہ والد کو 2/4، اب یہ حصہ بھی قرآن کے تو نہ ہوئے۔ میں سکرین شاٹ اٹیچ کر رہا ہوں ۔
یہ یاد رہے کہ اس کیس میں مرنے والے کے بہن بھائی موجود نہیں ہیں اور اس نے کسی کو کلالہ رشتہ داری کی بنیاد پر بھی حصہ دار نہیں بنایا ہوا۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar May 19, 2023 at 1:48 amایک ایک کر کے سوال پوچھیے تو جواب سے واضح ہو جائے گا کہ مختلف کیسز میں تقسیم کیسے ہوتی ہے۔
وراثت اگر صرف والدین اور ازواج میں سے کسی ایک یعنی میاں یا بیوی میں تقسیم ہونی ہے تو پہلے میاں یا بیوی کا حصہ نکالا جائے گا اور بعد میں والدین کا۔
اس کی دلیل قرآن مجید کے الفاظ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ ہے۔
اصلی ورثا کو حصہ بقیہ میں سے دیا جاتا ہے۔ اس لیے پہلی ازواج کے حصے نکالے جائیں گے پھر والدین کے۔ یوں پورا ترکہ تقسیم ہو جائے گا۔
اس کو ایک اور طرح سے یوں سمجھیے کہ جو بھی اصل وارث ہوتا ہے اس کے حصے ایک نسبت دو کے حساب سے دے جاتے ہیں۔ اگر اولاد ہو تو وہ اصل وارث ہے، اس کے حصے ایک نسبت دو سے دیے جاتے ہیں۔ اولاد نہ ہو تو یہی حصے بہن بھائیوں کے لیے بیان ہوئے ہیں، یعنی اصل وارث اب وہ ہیں۔ پھر جب یہ دونوں نہ ہو تو اصل وارث والدین ہیں۔ چنانچہ 1/3 اور 2/3 میں بھی ایک نسبت دو ہے۔ پورا قانون یکساں ہے۔
وراثت میں اصل وارث خونی رشتوں کو رکھا گیا ہے۔
Sponsor Ask Ghamidi