Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Epistemology And Philosophy Daughters Of Prophet Muhammad (SWS)

  • Daughters Of Prophet Muhammad (SWS)

    Posted by Mirza Baig on January 6, 2023 at 7:27 pm

    I have heard from Ahle tashayyu Zakir that our beloved priphet had only one daughter Fatima RA. The other three daughters were from Hazrat Khatij’s previous husband, and she brought them with her when she got married to our Nabi SAW. Please clarify this matter from historical perspective and timeline.

    Umer replied 1 year, 11 months ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • Daughters Of Prophet Muhammad (SWS)

  • Umer

    Moderator January 8, 2023 at 10:24 pm

    You can read the views of Ahl-e-Sunnat in the following link, Ghamidi Sahab also holds the same view:

    Sons And Daughters of Prophet Muhammad (sws)

    ____

    Following is the research of Al-Mawrid Scholar Dr Waseem Mufti on Ahl-e-Tashih claim regarding Daughters of Prophet Muhammad (sws):

    دختران نبی كی نسبت میں شك ڈالنا

    ۳۵۲ھ میں وفات پانے والے شیعہ مورخ ابوالقاسم كوفی كا كہنا ہے كہ حضرت رقیہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی سگی بیٹی نہ تھیں، بلكہ آپ كے ہاں پرورش پانے كی وجہ سے آپ كی بیٹی كے طور پر مشہور ہو گئیں۔ شیعہ عالم ابوجعفر محمد طوسی(وفات: ۴۶۰ھ)نے ان كے بارے میں اپنا یہ خیال ظاہر كیا:علی بن احمد كوفی جو ابوالقاسم كی كنیت سے مشہور ہیں،جادۂ مستقیم پر چلنے والے امامی تھے اور انھوں نے مذہب صحیح پر مشتمل كئی كتابیں تصنیف كیں۔لیكن پھر انھوں نے مخمسہ كے مذہب كا پرچار كرنا شروع كر دیا۔اس غالی گروه كا عقیدہ تھا كہ عالم كا كل انتظام پانچ اصحاب رسول حضرت سلمان فارسی،حضرت مقداد بن اسود،حضرت عمار، حضرت ابو ذر اور حضرت عمرو بن امیہ ضمری كے سپرد كر دیا گیا ہے(رجال الطوسی، ص ۴۳۴، رقم ۶۲۱۱)۔ نجاشی كہتے ہیں: علی بن احمد ابوالقاسم كوفی غالی اور فاسد المذہب تھا۔اس كی اكثر تصانیف بھی فساد پر مشتمل ہیں (رجال النجاشی، ص ۲۶۵، رقم ۶۹۱)۔ابن الغضائری كا كہنا ہے: ابو القاسم كوفی كذاب، غالی اور بدعتی ہے(رجال ابن الغضائری، ص ۸۲، رقم ۱۰۴)۔

    باقر مجلسی نے حضرت خدیجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی اولاد اس طرح بیان كی ہے:قاسم،طاہر (یعنی عبدالله )،ام كلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ (بحار الانوار۹/ ۶۵۳)۔پانچ روایتوں میں ام كلثوم، رقیہ، زینب اور فاطمہ كوآپ كی حقیقی بیٹیاں بتایا اور پھر كہہ دیا كہ زینب اور رقیہ حضرت خدیجہ كی بہن ہالہ یا جحش كی بیٹیاں تھیں جنھوں نے آپ كے ہاں پرورش پائی(بحار الانوار۹/ ۶۵۴- ۶۶۶)۔

    دور حاضر كے لبنانی عالم جعفر مرتضیٰ عاملی(۱۹۴۵ءتا ۲۰۱۹ء) نے اس غرض كے لیے كتاب ’’بنات النبي أم ربائبه‘‘ لكھی اور بتایا كہ حضرت رقیہ اور حضرت زینب حضرت خدیجہ كی بہن حضرت ہالہ كی سوتیلی بیٹیاں تھیں۔جب ان كے والدین كا انتقال ہو گیا اور حضرت خدیجہ كا بیاه آں حضور صلی الله علیہ وسلم سے ہو گیا تووه آپ كی پرورش میں آ گئیں۔ حضرت ام كلثوم كو بھی اس نے لے پالك بتایا ہے (ویكی شیعہ)۔

    شیعہ دلیل دیتے ہیں كہ مباہلہ میں حضرت فاطمہ كے سوا كوئی خاتون شریك نہ ہوئی۔صرف انھیں اہل بیت میں شمار كیا جاتا ہے۔

    شیعہ علما كی طرف سے رد

    اس خیال كو شیعہ علما كی اكثریت نے ردكیا ہے۔ان میں حسین بن روح(متوفی ۳۲۶ھ)، محمد بن یعقوب كلینی(متوفی۳۲۹ھ)،ابو عبد الله محمد المعروف بالشیخ المفید (متوفی ۴۱۳ھ)، شریف مرتضىٰ (متوفی۴۳۶ھ)، ابو جعفر طوسی (متوفی۴۶۰ھ)، فضل بن حسن طبرسی (متوفی۵۴۸ھ)،محمد بن علی المعروف بابن شہر آشوب (متوفی۵۸۸ھ)،بہاءالدین عاملی (متوفی۱۰۳۰ھ)، عبد الله مامقانی (متوفی ۱۳۵۱ھ)، ابو القاسم خوئی (متوفی ۱۴۱۳ھ) اور صادق شیرازی(پیدایش۱۳۶۰ھ) شامل ہیں۔ان سب كی راے ہے كہ حضرت ام كلثوم، حضرت زینب اور حضرت رقیہ نبی صلی الله علیہ وسلم كی حقیقی بیٹیاں ہیں۔

    جعفر مرتضیٰ عاملی كے جواب میں حسین علی مصطفیٰ نے اپنا مقالہ ’’بنات النبي لا ربائبه‘‘ لكھا۔ كہتے ہیں:الله تعالی ٰنے نبی صلی الله علیہ وسلم كی بیٹیوں كو ’يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ‘، ’’اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے كہہ دیجیے‘‘(الاحزاب۳۳: ۵۹) كہہ كر پكارا ہے۔ اگر آپ كی ایك ہی بیٹی ہوتی تو ’بنتك‘ فرمایا جاتا۔لے پالك بیٹیوں كی صورت میں بھی ’بناتك‘ نہ كہا جاتا، كیونكہ الله تعالیٰ نے خود متبنی ٰ كو اس كے اصل باپ كی طرف منسوب كرنے كا حكم دیا ہے۔

    محاصرے كے دنوں میں حضرت علی نے حضرت عثمان سے مخاطب ہو كر كہا:آپ نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی دامادی میں وه پایا ہے جو ابوبكر و عمر كو حاصل نہیں ہو سكا۔ان كی مراد تھی كہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم كی دو حقیقی بیٹیاں حضرت عثمان كے عقد میں آئیں۔

    ’ ’الكافی‘‘ میں ہے : نبی صلی الله علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے شادی كی، جب آپ كی عمر پچیس سال تھی۔ منصب نبوت عطا ہونےسے پہلے حضرت خدیجہ سے آپ كی یہ اولاد ہوئی :قاسم،رقیہ،زینب، ام كلثوم۔بعثت كے بعد حضرت خدیجہ نے طیب،طاہر اور فاطمہ كو جنم دیا (۱/ ۴۳۹-۴۴۰)۔

    حسین بن روح سےپوچھا گیا:رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم كی كتنی بیٹیاں تھیں؟ جواب دیا:چار۔پھر سوال ہوا: ان میں افضل كون سی تھیں؟انھوں نے كہا:فاطمہ،كیونكہ وه آپ كی وارث بنیں اور انھی سےآپ كی نسل چلی (كتاب الغیبۃ،شیخ طوسی، ص ۳۸۸، رقم۳۵۳۔ مناقب آل ابی طالب،ابن شہر آشوب ۳ / ۱۰۵۔ بحار الانوار ۴۳ / ۳۷)۔

    الشیخ المفید نے آپ كی بیٹیوں حضرت زینب اور حضرت ام كلثوم كی شادیوں كے وہی احوال بتائے جو علماے اہل سنت بیان كرتے ہیں (المسائل السرویۃ ۹۲-۹۴)۔

    شیخ طوسی نے یہ ارشاد رسول نقل كیا: جب حضرت رقیہ كے بعد حضرت عثمان كے عقد میں آنے والی دوسری دختر رسول حضرت ام كلثوم كا انتقال ہوا تو آپ نے فرمایا :اگر میری تیسری بیٹی ہوتی تو وه بھی تم سے بیاه دیتا(المبسوط۴ / ۱۵۹)۔

    طبرسی نےرسول الله صلی الله علیہ وسلم كے چار بیٹے ہونے كی روایت كا انكار كیا اور كہا:آپ كے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔انھوں نے بیٹیوں كے نام زینب، رقیہ،ام كلثوم اورفاطمہ گنوائے(اعلام الورى باعلام الہدى ۱ / ۲۷۵-۲۷۶)۔

    ابن شہر آشوب نے رسول اكرم صلی الله علیہ وسلم كی اولاد اس طرح بتائی:دو بیٹےقاسم اورعبد الله۔انھی كو طاہر اور طیب كے القاب ملے۔چار بیٹیاں زینب،رقیہ،ام كلثوم،جنھیں آمنہ بھی كہا جاتا ہے اورفاطمہ (مناقب آل ابی طالب۱/ ۱۴۰)۔

    شیخ بہائی عاملی كہتے ہیں: سید المرسلین اور حبیب رب العٰلمین كی اولاد كو الله تعالیٰ نے آپ كی زندگی ہی میں اٹھا لیا۔یہ آٹھ ستارے قاسم،عبد الله،طیب،طاہر،ابراہیم،زینب،رقیہ،ام كلثوم تھے۔آپ كی وفات كے بعد آپ كی اولاد میں صرف فاطمۃ الزہرا ہی زنده رہیں (المخلاة ۱۷)۔

    محمد تقی تستری نے نبی صلی الله علیہ وسلم كی بیٹیوں كا ذكر كرتے ہوئے حضرت رقیہ،حضرت ام كلثوم اور حضرت زینب كے لے پالك ہونے كے بارے میں كوئی روایت بیان نہیں كی (تواریخ النبی والآل ۷۶)۔ ابوالقاسم خوئی كہتے ہیں كہ معروف بات یہی ہے كہ نبی صلی الله علیہ وسلم كی ان چاروں بیٹیوں كو حضرت خدیجہ نے جنم دیا۔

    محمدشیرازی لكھتے ہیں: رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم كی كل اولاد سیدہ خدیجہ سے تھی، ما سواے ابراہیم كے جنھیں سیدہ ماریہ قبطیہ نے جنم دیا (كتاب امہات المعصومین )۔

    جھوٹ کا تانا بانا

    اثناعشری عالم باقر مجلسی(۱۶۲۷ء تا ۱۶۹۹ء) نے دعویٰ كیا كہ حضرت عثمان نےاپنی اہلیہ كو ڈنڈے مار كر قتل كیا، كیونكہ انھوں نے اپنے مشرك چچا مغیرہ بن ابوالعاص كی اپنے گھر میں موجودگی كی اطلاع نبی صلی الله علیہ وسلم كو دے دی تھی۔مغیره جنگ احد كے بعد آپ كی جاسوسی كرنے مدینہ آیا تھا اور حضرت عثمان كے ہاں پناه لے لی۔ اس كٹر كافر نے آں حضور صلی الله علیہ وسلم كے دندان مبارك شہید كرنے اور حضرت حمزہ كی جان لینے كا دعویٰ بھی كیا تھا( بحار الانوار۹/ ۶۶۰)۔ مغیرہ كے بیٹے معاویہ اور ابوسفیان كی بیوی ہند نے حضرت حمزه كی نعش كا مثلہ كیا تھا۔

    مجلسی نے ’بنت رسول اللّٰه‘ لكھا اور نام كی وضاحت نہ كی۔جس شیعہ محقق نے چاہا حضرت رقیہ كا نام لے لیا اورجب احساس ہوا كہ جنگ احد كے موقع پرحضرت رقیہ اس دنیا ہی میں نہ تھیں تو حضرت زینب كہہ دیا۔

    حضرت عثمان نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے درخواست كی كہ مغیرہ کو امان دے دی جائے۔آپ نے اسے تین دن كی مہلت دی، پھر مدینہ سے نكل جانے كا حكم دیا۔آپ حمرا ء الاسد گئے تو وہ اس مہم كے بارے میں معلومات اكٹھی كرتا رہا۔تین دن كی مہلت ختم ہو گئی تو آپ نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عمار كو اس كے پیچھے بھیجا۔انھوں نے مكہ كے راستے میں اسے جا لیا اور قتل كر ڈالا۔

    دور حاضر كا bloggerمروان العارف كہتا ہے:حضرت عثمان نے اپنے گھر میں مغیرہ كی موجودگی كے بارے میں نبی صلی الله علیہ وسلم كو مطلع نہ كیا۔وحی الہٰی سے آپ كو اس كی موجودگی كی خبر مل گئی تو اسے امان دینے كی سفارش كر دی۔ حضرت رقیہ نے (جو اس وقت زندہ نہ تھیں) ا س كی موجودگی كی اطلاع آپ تك پہنچائی اور جب نبی صلی الله علیہ وسلم كے حكم پر صحابہ اسے پكڑنے آئے تو اس كے چھپنے كی جگہ بتا دی۔ اس پر حضرت عثمان نے انتقاماً اپنی(مرحومہ) اہلیہ حضرت رقیہ كو ایسی ضرب لگائی كہ ان كی جان چلی گئی۔ الزام لگانے والا blogger ساتھ ہی یہ كہتا ہے كہ جمہورروایات میں اس امر كے كوئی شواہد نہیں كہ حضرت عثمان نے اپنی اہلیہ كو ایسی جان لیوا ضرب لگائی۔ یہ ہمیں سیاق موضوعی یا تسلسل موضوعی سے پتا چلا كہ ایسا ہوا ہو گا۔ جمہور امامیہ كی روایات قبول نہیں كرتے، اس لیے حضرت عثمان كا اپنی اہلیہ كو قتل كرنا نقل نہیں ہوا۔

    نبی صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عثمان كو سزا نہ دی، كیونكہ آپ كے پاس كافی قانونی شواہد نہ تھے، حالاں كہ حضرت جبریل نے آپ كو خبر كر دی تھی۔آپ منافقین كے ارادوں او ر نیتوں سے خبر ركھتے ہوئے بھی ان كو سزا نہ دیتے تھے، كیونكہ ان كے خلاف شہادت ہوتی نہ انھوں نےاعتراف جرم كیا ہوتا۔ایك اور شیعی روایت كے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عثمان كے گھر گئے تو ان كی بیٹی(نام كا پتا نہیں) رونےچیخنے لگ گئی۔ آپ اسے اپنے گھر لے گئے،اس نے قمیص ہٹا كر ضربوں كے نشان دكھائے۔چوتھے دن اس كی وفات ہو گئی۔

    حرف آخر

    آخر میں ہم ابوجعفر محمد طوسی كی كتاب’ ’تہذیب الاحكام‘‘(۳ /۱۲۰) سے ایك دعانقل كرتے ہیں جسے امامیہ كی كتب اربعہ میں شمار كیا جاتا ہے: ’اللّٰهم صل على القاسم و الطاهر ابني نبيك، اللّٰهم صل على رقية بنت نبيك و العن من أذى نبيك فيها، اللّٰهم صل على ام كلثوم بنت نبيك و العن من أذى نبيك فيها‘، ’’اے الله: اپنے نبی كے بیٹوں قاسم اور طاہر پر سلامتی نازل كرنا،اے الله اپنے نبی كی بیٹی رقیہ پر سلامتی بھیجنا اور ان پر لعنت نازل كرنا جو اس كے بارے میں تیرے نبی كو اذیت پہنچاتے ہیں۔ اے الله، اپنے نبی كی بیٹی ام كلثوم پر رحمت نازل كرنا اور اس پر لعنت كرنا جو اس كے باب میں تیرے نبی كو تكلیف پہنچاتے ہیں‘‘۔یہی دعا شیخ عباس قمی نے’ ’مفاتیح الجنان ‘‘ میں نقل كی ہے(۱ /۲۸۵)۔

    جوحضرت زینب،حضرت رقیہ اور حضرت ام كلثوم كو نبی صلی الله علیہ وسلم كی حقیقی بیٹیاں ماننے سے انكار كرتا ہے، اصل اذیت رساں ہے اور امامی علما كی بددعا كا حقیقی مستحق ہے۔

    (Source Link: مہاجرین حبشہ (۱۰))

You must be logged in to reply.
Login | Register