Forums › Forums › Sources of Islam › Compulsion Of Breastfeeding Infants In Islam
-
Compulsion Of Breastfeeding Infants In Islam
Posted by Wajeeha Khanam on May 2, 2023 at 5:04 amمستدرک حاکم کی حدیث 2763 میں بچوں کو دودھ نہ پلانے والی خواتین کو وعید سنائی گئی ہے ۔جبکہ قرآن میں واضح اجازت ہے دودھ چھڑانے کی بھی یا کسی اور سے پلوانے کی بھی ۔
اس کی وضاحت فرما دیں
Umer replied 1 year, 6 months ago 2 Members · 5 Replies -
5 Replies
-
Compulsion Of Breastfeeding Infants In Islam
-
Umer
Moderator May 2, 2023 at 5:42 pmFor comments of Ghamidi Sahab, please refer to the video below from 30:46 to 32:23
-
Wajeeha Khanam
Member May 3, 2023 at 10:19 amپھر اگر دونوں باہمی رضا مندی اور آپس کے مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ اور اگر تم اپنے بچوں کوکسی اور سے دودھ پلوانا چاہو تو اِس میں بھی تمھارے لیے کوئی مضایقہ نہیں
اس آیت میں تو کسی عذر کا ذکر نہیں کیا گیا؟
-
Umer
Moderator May 4, 2023 at 1:57 amیہ قرآن 2:233 سے ہے اور طلاق کے بعد کے تناظر میں ہے۔ اگر باپ چاہتا ہے کہ اس کے بچے کی ماں اسے دو سال تک دودھ پلائے تو ماں پر ایسا کرنا واجب ہے، اگر وہ دونوں دو سال سے پہلے بچے کا دودھ چھڑانے پر راضی ہوں تو یہ بھی جائز ہے۔ بچے کو دودھ نہ پلانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس کے بجائے بچے کو ہر حال میں دودھ پلایا جائے گا، لیکن نرمی صرف دودھ پلانے کے طریقے اور دودھ پلانے کی مدت کے معاملے میں دستیاب ہے۔
______
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِوَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور (طلاق کے بعد بھی) مائیں اُن لوگوں کے لیے جو دودھ کی مدت پوری کرنا چاہتے ہوں، اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں گی اور بچے کے باپ کو (اِس صورت میں) دستور کے مطابق اُن کا کھانا کپڑا دینا ہو گا۔ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ نہ کسی ماں کواُس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ کسی باپ کو اُس کے بچے کے سبب سے ـــــ اور اِسی طرح کی ذمہ داری اُس کے وارث پر بھی ہے ـــــ ــــــ پھر اگر دونوں باہمی رضا مندی اور آپس کے مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور اگر تم اپنے بچوں کوکسی اور سے دودھ پلوانا چاہو تو اِس میں بھی تمھارے لیے کوئی مضایقہ نہیں، بشرطیکہ (بچے کی ماں سے) جو کچھ تم نے دینا طے کیا ہے، وہ دستور کے مطابق اُسے دے دو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُسے دیکھ رہا [616] ہے۔
(Quran 2:233)
(Excerpt from Al-Bayan: Javed Ahmed Ghamidi)
________
[616]. .طلاق کے بعد بچے کی رضاعت کے جو احکام اِس آیت میں بیان ہوئے ہیں، اُن کا خلاصہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہے
’’ مطلقہ پر اپنے بچے کو پورے دو سال دودھ پلانے کی ذمہ داری ہے، اگر طلاق دینے والا شوہر یہ چاہتا ہے کہ عورت یہ رضاعت کی مدت پوری کر ے ـ۔ اِس مدت میں بچے کے باپ پر مطلقہ کے کھانے کپڑے کی ذمہ داری ہے اور اِس معاملے میں دستور کا لحاظ ہو گا، یعنی شوہر کی حیثیت، عورت کی ضروریات اور مقام کے حالات پیش نظر رکھ کر فریقین فیصلہ کریں گے کہ عورت کو نان و نفقہ کے طور پر کیا دیا جائے۔ فریقین میں سے کسی پر بھی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، نہ بچے کے بہانے سے ماں کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی، اور نہ بچے کی آڑ لے کر باپ پر کوئی ناروا دباؤ ڈالا جائے گا۔ اگر بچے کا باپ وفات پا چکا ہو تو بعینہٖ یہی پوزیشن مذکورہ ذمہ داریوں اور حقوق کے معاملے میں اُس کے وارث کی ہو گی۔ اگر باہمی رضا مندی اور مشورے سے دو سال کی مدت کے اندر ہی اندر بچے کا دودھ چھڑا دینے کا عورت مرد فیصلہ کر لیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اگر باپ یا بچے کے ورثابچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کرنے کے مجاز ہیں، بشرطیکہ بچے کی والدہ سے دینے دلانے کی جو قرار داد ہوئی ہے، وہ پوری کر دی جائے۔‘‘
(تدبر قرآن ۱/۵۴۵)
-
-
Wajeeha Khanam
Member May 4, 2023 at 5:32 amیعنی طلاق کے علاوہ دوودھ پورے دو سال پلایا جائے گا ؟
-
Umer
Moderator May 6, 2023 at 1:11 amبچے کو دودھ پلایا جائے گا، یہ اس کا حق ہے۔ دودھ پلانے کی مدت اور طریقہ شریعت میں متعین نہیں کیا گیا ہے کیونکہ بہت سے عوامل ایسے فیصلے کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں جو وقت اور جگہ کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔
-
Sponsor Ask Ghamidi