قربانی کی طرح صفا ومروہ کی یہ سعی بھی بطور تطوع (نفل) کی جاتی ہے۔ یہ عمرے کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے ۔ عمرہ اِس کے بغیر بھی مکمل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا، وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا ، فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ.(البقرہ ۲: ۱۵۸)
صفا و مروہ بیت اللہ کے پاس وہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان حج و عمرہ کے موقع پر سعی کی جاتی ہے۔ اصل قربان گاہ جہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے فرزند کو قربانی کے لیے پیش کیا، وہ چونکہ یہی مروہ ہے، اِس لیے یہود نے اپنے صحیفوں میں اِس کا تعلق بھی اُن سے کاٹ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اِس کی تفصیلات امام حمید الدین فراہی کی کتاب ’’الرأی الصحیح فی من ہوالذبیح‘‘ میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔
یہ نفل عبادت ہے۔ یہ قربانی کے پھیرے ہیں۔ خدا کے دین میں یہ سنت قائم کی گئی تھی کہ قربانی کے جانور کو قربانی سے پہلے خدا کے معبد اور قربان گاہ کے گرد پھیرے لگوائے جاتے تھے۔ اسے تیزی سے کیا جاتا ہے۔ صفا اور مروہ کی یہ سعی ہماری قربانی کے پھیرے ہیں مگر اس کے آخر میں خود کو قربان کرنے کی بجائے ہم جانور قربان کر کے اپنی قربانی کا علامتی اظہار کرتے ہیں۔