Yes, it is the same date.
Ghamidi Sahab writes in Mizan:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بعد، البتہ جو اہمیت و عظمت اور وسعت و ہمہ گیری اِس عبادت کو حاصل ہوئی ہے ، وہ اِس سے پہلے، یقیناًحاصل نہیں تھی۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہو کرہجرت کی تو اِس کے ساتھ ہی دعا فرمائی کہ پروردگار ، تو مجھے صالح اولاد عطا فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اُنھیں ایک فرزند کی ولادت کی خوش خبری دی۔ یہ فرزند اسمٰعیل تھے۔ قرآن کا بیان ہے کہ یہ جب باپ کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچے تو ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ اُنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت ہو رہی ہے کہ اِس بیٹے کو اپنے پروردگار کی خاطر قربان کر دیں۔ یہ ہدایت اگرچہ خواب میں ہوئی تھی اور خواب کی باتیں تاویل و تعبیر کی محتاج ہوتی ہیں، چنانچہ اِس خواب کی تعبیر بھی یہی تھی کہ وہ بیٹے کو معبد کی خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی نذر کر دیں۔اِس سے ہر گز یہ مقصود نہ تھا کہ وہ فی الواقع اُسے ذبح کر یں۔ لیکن خدا کے اِس صداقت شعار بندے نے کوئی تعبیر نکالنے کے بجاے من وعن اِس کی تعمیل کا فیصلہ کر لیا اور اِس راہ میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ فرزند کے حوصلے کا اندازہ کرنے کے لیے اپنا خواب اُسے بتایا۔ سیدنا اسمٰعیل نے اِس خواب کو خدا کا حکم سمجھا اور فوراً جواب دیا کہ ابا جان، آپ بے دریغ اِس کی تعمیل کریں۔ ان شاء اللہ ، آپ مجھے پوری طرح ثابت قدم پائیں گے۔ بچے کے جواب سے مطمئن ہو کر ابراہیم اُس کو مروہ کی پہاڑی کے پاس لے گئے اور قربانی کے لیے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ قریب تھا کہ چھری چل جاتی، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی: ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یہ ایک بڑی آزمایش تھی، تم اِس میں کامیا ب ہوئے، لہٰذا اب مزید کسی اقدام کی ضرورت نہیں رہی ۔ چنانچہ ابراہیم کے اِس فرزند جلیل کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی قربانی کے عوض چھڑا لیا اور اِس واقعے کی یادگار کے طور پر ہر سال اِسی تاریخ کو قربانی کی ایک عظیم روایت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ یہی قربانی ہے جو حج وعمرہ کے موقع پر اور عید الاضحی کے دن ہم ایک نفل عبادت کے طور پرپورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔