Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 19:56-57 – Prophet Idrees (sws)

Tagged: ,

  • Quran 19:56-57 – Prophet Idrees (sws)

    Ahsan updated 1 year, 4 months ago 2 Members · 1 Reply
  • Ahsan

    Moderator August 31, 2023 at 12:40 am

    Molana Ahsan Islahi sb writes following

    حضرت ادریسؑ : حضرت ادریسؑ کے متعلق اسفار یہود اور بائیبل ہسٹری میں کوئی ایسی چیز مجھے نہیں مل سکی جس کی بنیاد پر ان کی نسبت میں کوئی بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکوں۔ قدیم و جدید مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے ان کی بنیاد تمام تر قیاسات و مفروضات پر ہے اس وجہ سے اس کا حوالہ دینا بے فائدہ ہے۔ قرآن نے جس انداز سے ان کا ذکر فرمایا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے صحیفوں میں ان کا ذکر موجود تھا اور ان کی نسبت کچھ غلط صحیح روایات بھی ان کے ہاں مشہور تھیں۔ اب یا تو یہ ہوا کہ جس طرح اکثر انبیاء کے نام عربی لب و لہجہ میں آکر کچھ سے کچھ ہو گئے ہیں اسی طرح حضرت ادریسؑ کا نام بھی بدل گیا ہو یا یہ ہوا ہو کہ تورات کی ابتدائی روایات میں ان کا ذکر موجود رہا ہو لیکن بعد کے نسخوں سے ان کا ذکر غائب ہو گیا ہو۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تورات کئی مرتبہ غائب ہوئی ہے اور کئی مرتبہ زبانی روایات کے ذریعہ سے مرتب ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس کے نسخوں میں اختلاف بھی ہوا اور اس کے اندر برابر کمی بیشی بھی ہوتی رہی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ قرآن نے جس طرح تورات کے بہت سے گم شدہ یا گم کردہ حقائق کا سراغ دیا ہے اور جس کی بہت سی مثالیں اس کتاب میں گزر چکی ہیں اسی طرح تاریخ انبیاؑء کے ایک گم گشتہ ورق کا پتہ حضرت ادریسؑ کا ذکر کر کے دیا۔ ان کا کردار بھی دوسرے انبیاء کی طرح پوری انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ تھا اس وجہ سے قرآن نے صحیح پہلو سے ان کی یاددہانی فرما دی اور ان کو ازسرنو تاریخ میں زندہ کر دیا۔ حضرت ادریسؑ اور حضرت اسماعیلؑ میں وصفی اشتراک: ان کی تعریف میں بھی بعینہٖ وہ لفظ وارد ہوا ہے جو اوپر حضرت ابراہیمؑ کی تعریف میں وارد ہوا ہے۔ یعنی ’صدیق‘۔ اس لفظ کے مضمرات اوپر بیان ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت ادریسؑ کو یہ مقام بہت سے امتحانات سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوا ہو گا۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت ادریسؑ کا ذکر یہاں بھی حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ ہوا ہے اور سورۂ انبیاء میں بھی حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ ہی ہوا ہے۔ اور حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ ان کو بھی صابرین میں شمار کیا گیا ہے اور فرمایا ہے:
    ’وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ‘ (الانبیاء ۸۵) (اور اسمٰعیل، ادریس اور ذوالکفل کو یاد کرو، ان میں سے ہر ایک ثابت قدموں میں سے تھا)
    ان دونوں مقامات پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں نبیوں میں بڑی گہری وصفی مماثلت ہے۔ اس وجہ سے ان کا ذکر ساتھ ساتھ ہوا۔ ان کو صبر اور ثابت قدمی کے بڑے کڑے امتحانات سے گزرنا پڑا اور ان میں پاس ہونے کے صلہ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس مرتبۂ بلند کی سرفرازی حاصل ہوئی جس کا ذکر ’وَرَفَعْنٰہٗ مَکَانًا عَلِیًّا‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔
    حضرت ادریسؑ : حضرت ادریسؑ کے متعلق اسفار یہود اور بائیبل ہسٹری میں کوئی ایسی چیز مجھے نہیں مل سکی جس کی بنیاد پر ان کی نسبت میں کوئی بات اعتماد کے ساتھ کہہ سکوں۔ قدیم و جدید مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے ان کی بنیاد تمام تر قیاسات و مفروضات پر ہے اس وجہ سے اس کا حوالہ دینا بے فائدہ ہے۔ قرآن نے جس انداز سے ان کا ذکر فرمایا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے صحیفوں میں ان کا ذکر موجود تھا اور ان کی نسبت کچھ غلط صحیح روایات بھی ان کے ہاں مشہور تھیں۔ اب یا تو یہ ہوا کہ جس طرح اکثر انبیاء کے نام عربی لب و لہجہ میں آکر کچھ سے کچھ ہو گئے ہیں اسی طرح حضرت ادریسؑ کا نام بھی بدل گیا ہو یا یہ ہوا ہو کہ تورات کی ابتدائی روایات میں ان کا ذکر موجود رہا ہو لیکن بعد کے نسخوں سے ان کا ذکر غائب ہو گیا ہو۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تورات کئی مرتبہ غائب ہوئی ہے اور کئی مرتبہ زبانی روایات کے ذریعہ سے مرتب ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس کے نسخوں میں اختلاف بھی ہوا اور اس کے اندر برابر کمی بیشی بھی ہوتی رہی ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ قرآن نے جس طرح تورات کے بہت سے گم شدہ یا گم کردہ حقائق کا سراغ دیا ہے اور جس کی بہت سی مثالیں اس کتاب میں گزر چکی ہیں اسی طرح تاریخ انبیاؑء کے ایک گم گشتہ ورق کا پتہ حضرت ادریسؑ کا ذکر کر کے دیا۔ ان کا کردار بھی دوسرے انبیاء کی طرح پوری انسانیت کے لیے اسوہ اور نمونہ تھا اس وجہ سے قرآن نے صحیح پہلو سے ان کی یاددہانی فرما دی اور ان کو ازسرنو تاریخ میں زندہ کر دیا۔ حضرت ادریسؑ اور حضرت اسماعیلؑ میں وصفی اشتراک: ان کی تعریف میں بھی بعینہٖ وہ لفظ وارد ہوا ہے جو اوپر حضرت ابراہیمؑ کی تعریف میں وارد ہوا ہے۔ یعنی ’صدیق‘۔ اس لفظ کے مضمرات اوپر بیان ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ حضرت ادریسؑ کو یہ مقام بہت سے امتحانات سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوا ہو گا۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت ادریسؑ کا ذکر یہاں بھی حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ ہوا ہے اور سورۂ انبیاء میں بھی حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ ہی ہوا ہے۔ اور حضرت اسماعیلؑ کے ساتھ ان کو بھی صابرین میں شمار کیا گیا ہے اور فرمایا ہے:
    ’وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ‘ (الانبیاء ۸۵) (اور اسمٰعیل، ادریس اور ذوالکفل کو یاد کرو، ان میں سے ہر ایک ثابت قدموں میں سے تھا)
    ان دونوں مقامات پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں نبیوں میں بڑی گہری وصفی مماثلت ہے۔ اس وجہ سے ان کا ذکر ساتھ ساتھ ہوا۔ ان کو صبر اور ثابت قدمی کے بڑے کڑے امتحانات سے گزرنا پڑا اور ان میں پاس ہونے کے صلہ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس مرتبۂ بلند کی سرفرازی حاصل ہوئی جس کا ذکر ’وَرَفَعْنٰہٗ مَکَانًا عَلِیًّا‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔

You must be logged in to reply.
Login | Register