Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Epistemology And Philosophy Putting Limits And Specificity On Directives Of Quran (قرآن کی تخصیص و تقیید)

Tagged: ,

  • Putting Limits And Specificity On Directives Of Quran (قرآن کی تخصیص و تقیید)

    Posted by Abdul Basit on August 30, 2023 at 4:18 pm

    سلام علیکم

    سر! حدیث قرآن کی تخصیص و تقیید نہیں کر سکتی

    اس کی دلیل یہ دی ہے غامدی صاحب نے کہ قرآن نے رسول کو “تبیین” کا حق دیا ہے

    جس کا مطلب کلام کی ایسی وضاحت جو وہاں سے نکل رہی ہو جسے اردو میں شرح کہتے ہیں

    تو اگر ایک محکم اور قابلِ حجت شخص کہہ رہا ہے کہ اس “لفظ” سے خاص مراد ہے

    اور فلاں اطلاق سے مقید تو یہ بھی تو لفظ سے کشید ہے

    خود قرآن بھی بسا اوقات عام لفظ استعمال کرتا ہے مگر مراد خاص لیتا ہے

    یوں حدیث تخصیص و تقیید کیوں نہیں کر سکتی؟

    غامدی صاحب میزان میں کہتے ہیں یوں تو آپ ہر لفظ سے کوئی بھی معنی مراد لے سکتے ہیں آفتاب کو چاند کہہ دینا وغیرہ وغیرہ

    واضح ہے کہ متضاد کا منبع و ماخذ اب وہ کلام رہا نہیں

    مگر تخصیص و تقیید میں تو منبع وہیں موجود ہوتا ہے

    دوسری بات: قرآن حدیث کو کیسے تخصیص دے گا یا تقیید کیونکہ قرآن مبیّنِ حدیث تو ہے ہی نہیں، یہ ہو سکتا ہے کہ ہم حدیث کو رد کر دیں کیونکہ وہ قرآن کے مقابلے میں ہے مگر اس کو آدھا کیسے لیا جا سکتا کیونکہ ہوری حدیث معرضِ سوال و شک میں آ گئی محض تعارض کی وجہ سے

    رہنمائی کیجیے گا

    Dr. Irfan Shahzad replied 1 year, 3 months ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • Putting Limits And Specificity On Directives Of Quran (قرآن کی تخصیص و تقیید)

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar August 31, 2023 at 4:48 am

    یہ سوال یہ فرض کر کے کیا گیا ہے کہ حدیث کے الفاظ کا تحقق رسول سے ہو چکا۔ ایسی کوئی بھی حدیث کو تو اسے قبول کرنا جزو ایمان ہے۔ اس کا انکار کفر ہے۔

    یہاں پہلا سوال ہی ہے کہ ذریعہ علم ہی جب ظنی ہے تو الفاظ کا الفاظ رسول ہونے کا تحقق ہی ظنی ہے تو قرآن کے مقابلے میں قابل حجت ہونے کی پوزیشن کیسے اختیار کر سکتا ہے؟

    اسے ہر صورت میں قرآن کے تابع رکھ کر ہی دیکھا جائے گا۔

    تقیید اور تخصیص بھی وہی قبول کی جائے گی جس کی گنجایش یا تقاضا الفاظ قرآنی میں موجود ہو۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ قرآن کے الفظ عموم کا تقاضا کر رہے ہوں اور حدیث سے اس کی تخصیص یا تقیید کر دی جائے۔ یہ قابل قبول نہیں۔ اس صورت میں یہی سمجھا جائے کہ راوی سے تجاوز ہوا ہے یا راوی کی روایت سے فہم اخذ کرنے میں فقہا سے خطا ہوئی ہے۔ یہ رد کرنا رسول کی بات کو رد کرنا نہیں کیونکہ رسول ایسی کوئی بات نہیں کر سکتے۔

    دوسرے سوال کے جواب میں عرض ہے کہ حدیث کو ہم قرآن کی روشنی مین دیکھتے ہیں، اس میں کوئی تخصیص بھی ہو سکتی ہے تاویل بھی اور تردید بھی۔

You must be logged in to reply.
Login | Register