Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Explanation Of Hadith That Religion Is Sincerity (الدین النصیحه)

Tagged: ,

  • Explanation Of Hadith That Religion Is Sincerity (الدین النصیحه)

    Posted by Ahmad Zia Jamili on September 4, 2023 at 1:46 am

    مسلم شریف مین حدیث هی که “قال رسول الله ص الدین النصیحه ثلاثا، قلنا لمن یا رسول الله ؟ قال : لله و لکتابه و لرسوله و لائمه المسلمین و عامتهم ” اخرجه المسلم برقم 205

    اس حدیث کا تشریح استاد غامدی صاحب نی کیا هی؟ اس کی تشریح اگر هوسکی تو از براه کرم لطف کیجیی

    Umer replied 1 year, 2 months ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • Explanation Of Hadith That Religion Is Sincerity (الدین النصیحه)

    Umer updated 1 year, 2 months ago 2 Members · 1 Reply
  • Umer

    Moderator September 7, 2023 at 4:19 am

    عَنْ تَمِیْمِ الدَّارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ. قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُوْلِہِ وَلِاَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِہِمْ.

    حضرت تمیم داری (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین خیر خواہی ہے۔ ہم نے پوچھا: کس کی؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے لیڈروں کی اور ان کے عام آدمی کی۔

    لغوی مباحث

    ’النََّصِیْحَۃُ‘: ’ النَّصِیْحَۃُ ‘ کا اشتقاق ’ نَصَحَ یَنْصَحُ نُصْحًا‘ سے بھی ہو سکتا ہے اور ’ نَصَحَ یَنْصَحُ نَصْحًا‘ سے بھی۔ پہلی صورت میں اس کے معنی خلوص اور خیر خواہی کے ہیں اور دوسری صورت میں اس کا مطلب سینا ہے۔ مراد یہ کہ جس طرح سوئی اور دھاگا کاٹنے کے بجاے جوڑتا ہے، اسی طرح تم بھی جوڑنے والے بنو۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا امکان محض فن لغت کی حد تک ہے، اس فعل کے عام استعمالات کو سامنے رکھیں تو اس کے معنی خلوص اور خیرخواہی ہی کے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کے اس معنی کی بہت اچھی مثال سورۂ توبہ میں ہے۔ غزوۂ تبوک میں شرکت اور عدم شرکت کا مسئلہ اسلام کے ساتھ سچائی اور منافقت کاامتحان بنا ہوا تھا۔ اس پس منظر میں ان لوگوں کا مسئلہ بھی زیربحث تھا جو شدید خواہش اور تمنا کے باوجود محض کسی بیماری، جسمانی کمزوری یاوسائل کی عدم دست یابی کے باعث شرکت کرنے سے معذور تھے۔ سورۂ توبہ (۹: ۱۹)میں فرمایا کہ ایسے لوگوں کی عدم شرکت میں حرج نہیں، بشرطیکہ یہ ’نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہِ‘ (اللہ اور اس کے رسول کے خیرخواہ) ہوں۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ لفظ ’النَّصِیْحَۃُ‘ کے معنی کا اصل رخ خلوص کی طرف ہے۔ خیرخواہی چونکہ خلوص ہی کا عملی مظہر ہے، اس لیے یہ لفظ اس پہلو سے بھی استعمال ہوتا ہے۔ روایت میں بھی چونکہ یہی پہلو مراد ہے، اس لیے ہم نے ترجمہ ’’خیرخواہی‘‘ کے لفظ ہی سے کیا ہے۔

    ’اَءِمَّۃِ‘: ’اَءِمَّۃِ ‘ ، ’امام‘ کی جمع ہے۔ امام کے معنی رہنما کے ہیں۔ یہ لفظ دینی اور سیاسی، دونوں رہنماؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ اس روایت کی شرح کرتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کون سا پہلو مراد ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مذہبی قائد ہی سیاسی قائد تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ دونوں حیثیتیں جمع تھیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو عامل بنایا، وہ بھی اور خلافت راشدہ میں خلفا بھی یہ دہری ذمہ داری ادا کرتے رہے۔ دینی رہنما یا عالم دین ایک الگ نوع کے طور پر بعد میں سامنے آئے ہیں۔ چنانچہ جس صورت حال میں یہ لفظ بولا گیا ہے، اس میں حکام و عمال ہی اس سے مراد ہیں، البتہ بعد کی صورت حال میں جب ہم اس ہدایت کا اطلاق کریں گے تو علما بھی اس میں شامل ہوں گے۔

    معنی

    اس روایت کے دو حصے ہیں: ایک حصہ ’اَلدِّیْنُ النَّصِْحَۃُ‘ کے مختصر جملے پر مشتمل ہے اور دوسرا ’ لِمَنْ‘ کے جواب میں حضور کے ارشاد پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں جو بات کہی گئی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پورے دین کو خیرخواہی قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ بات اپنے ظاہر ہی میں درست نہیں لگتی۔ چنانچہ شارحین نے اسے ’عِمَادُہُ ‘ یا ’مُعْظَمُہُ‘ ۱؂ کے معنی میں لے کر حل کیا ہے۔ یہ معنی لینے میں وہ ایک اور روایت دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ آپ کا ارشاد ہے: ’اَلْحَجُّ عَرَفَۃٌ‘ (حج عرفہ ہے)۔ ظاہر ہے، اس جملے کا مطلب یہی ہے کہ حج کا بنیادی، اہم ترین یا بڑا جزعرفہ ہے۔ ۲؂ بے شک اس اسلوب کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں، لیکن یہ اسلوب ایک دوسرے پہلو کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ نماز ذکر ہے تو اس جملے سے نماز کی حقیقت واضح کرنا مقصود ہے۔ ہمارے نزدیک اس جملے میں بھی دینی وابستگیوں کی روح بیان کی گئی ہے۔ ہمارے اس خیال کی تائید اگلے سوال و جواب سے بالکل واضح طور پر ہوتی ہے۔شارحین میں سے سب سے بہتر تعبیر نووی کی ہے، ان کے نزدیک دین کا عماد اور قوام نصیحت ہے، یعنی سچا دین دار اپنے کردار میں خیر خواہ ہوتا ہے۔

    لغوی مباحث میں ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ ’النَّصِیْحَۃُ ‘ کے معنی کیا ہیں۔ مادی اشیا کی نسبت سے ’ نَصَحَ ‘ کا فعل صاف اور خالص کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ جب یہ افراد کی نسبت سے استعمال ہو گا تو اس کے معنی خالص ہونے، یعنی خلوص کے ہوں گے۔ خلوص رویے کی صورت میں خیرخواہی بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ خیر خواہی قول سے بھی ہوتی ہے اورعمل سے بھی۔ کسی فرد کے ساتھ خیر خواہی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک اس کے حقوق ادا نہ کیے جائیں۔ چنانچہ حقوق ادا کرنے، نقصان سے بچانے، فائدہ پہنچانے اور حمایت کرنے تک سارے امور خلوص و خیر خواہی کا حصہ ہیں۔

    دوسرا حصہ ’ لِمَنْ‘ کے سوال سے شروع ہوتا ہے۔ یہ سوال بڑا بر محل ہے۔ اگر چہ پہلے جملے میں بات جس طرح جامع اسلوب میں بیان کی گئی ہے، اس سے ہم یہ سمجھ سکتے تھے کہ ایک مسلمان جہاں جہاں وابستہ ہوتا ہے، اسے اپنے ہر تعلق میں مخلص اور خیر خواہ ہونا چاہیے۔ اسی سے وہ حقیقی دین داری کو پا سکتا ہے، لیکن سوال اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب نے بات کو ہر اعتبار سے واضح کر دیا ہے۔ مزید براں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر خواہی کا اطلاق جن جن دائروں میں کیا ہے، اس سے یہ بات واضح کر دی ہے کہ وابستگی خواہ دینی ہو اور خواہ انسانی، خیر خواہی کا تقاضا ہر دائرے میں ہے۔

    ہم اوپر یہ عرض کر چکے ہیں کہ خلوص اور خیر خواہی کا سب سے پہلا اظہارحق ادا کرنا ہے۔اس کے بعد توقیر وتعظیم، مدد وتحفظ، حمیت وحمایت اور ترقی وفروغ کے مراحل آتے ہیں۔ شارحین روایت نے اللہ تعالیٰ، کتاب، رسول، مسلم رہنماؤں اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کی جو تفصیل کی ہے، وہ درحقیقت یہی امور ہیں۔

    شارحین لکھتے ہیں:

    اللہ کی نسبت سے خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے، انھیں صحیح صفات سے متصف کیا جائے، ان کے حکم دینے کا حق تسلیم کیا جائے، ظاہر وباطن سے ان کے سامنے جھکا جائے، ان سے محبت کی جائے، ان کے ڈر کی وجہ سے گناہ نہ کیے جائیں اور ان کے مجرموں سے جہاد کیا جائے۔

    کتاب کی نسبت سے خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے خدا کی جانب سے ہونے کی تصدیق کی جائے، اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ مانا جائے، اس کے معنی سمجھے جائیں، اسے دوسروں کو سکھایا جائے، اس کے اگلی نسلوں تک درست انتقال کا اہتمام کیا جائے، اس کے بارے میں شبہات دور کیے جائیں اور اس کے احکام وتعلیمات پر عمل کیا جائے۔

    رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ ان پر ایمان لایا جائے، ان کے امرونہی پر عمل کیا جائے، ان کی جان ومال سے مدد کی جائے، ان کی سنت کا احیا کیا جائے، ان پر درود پڑھا جائے، ان کے اخلاق عالیہ کی تقلید کی جائے اور ان سے اور ان کے اہل بیت سے محبت کی جائے۔

    سیاسی رہنماؤں کی نسبت سے خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ ان کی حق میں اطاعت کی جائے اور حق میں ان کی مدد کی جائے، ان کو اللہ یاد دلایا جائے، ان معاملات سے انھیں آگاہ رکھا جائے جن سے ان کا آگاہ ہونا ضروری ہے، ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے، ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے، ان کو زکوٰۃ ادا کی جائے، ان کی ذمہ داریوں میں ان کی مدد کی جائے اورانھیں ظلم کرنے سے بچایا جائے، جن معاملات میں وہ غفلت کا شکار ہیں، ان کی غفلت دور کی جائے۔

    علما سے خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ ان سے علم سیکھا جائے اور ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔

    عام لوگوں کی نسبت سے خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ ان کی دین ودنیا میں بہتر رہنمائی کی جائے، دین ودنیا کے معاملات میں ان کی مدد کی جائے، ان کے جاہل کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جائے، ان کے بڑے کی توقیر اور ان کے چھوٹے پر رحم کیا جائے، ان کے افتراق وانتشار کو روکا جائے، ان سے حسد اور دھوکا نہ کیا جائے، ان کو فائدہ پہنچایا جائے، نقصان سے ان کی حفاظت کی جائے اور ان کے لیے وہی پسند کیا جائے جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔

    شارحین کی یہ ساری تفصیل اس رویے کے کچھ نمایاں مظاہر ہیں جس کا عنوان خلوص و خیر خواہی ہے۔ فرد کی تبدیلی، حالات کے فرق، رجحانات کے اختلاف اور طبیعتوں کے تفاوت کی وجہ سے ان مظاہر کی کوئی مکمل فہرست بنانا ممکن نہیں ہے۔

    لغوی مباحث میں ہم سورۂ توبہ کی آیت نقل کر چکے ہیں جس میں ’نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حق اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رفاقت کے تقاضے کئی پہلووں سے بیان ہوئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اصل محرک خلوص اور خیر خواہی کو اس روایت میں بیان کر دیا ہے۔ جب تفصیل کے لیے سوال کیا گیا تو آپ نے ان چیزوں کو بیان کر دیا جن کے ساتھ وابستگی کے تقاضے قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان ہوئے ہیں۔

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایک نصیحت ہے، جس میں دین اور انسانوں کے ساتھ وابستگی کے اصل اصول کو بیان کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتوں کا مطالعہ کریں تو ایک عملی حقیقت نظر آتا ہے۔ انھوں نے بندگی، خدا کے رسول اور خدا کی کتاب کے ساتھ وابستگی اورحکمرانوں اور خلق خدا کی خیر خواہی کے تقاضے جس طرح پورے کیے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے دین کے اس پہلو کو خوب سمجھا اور پھر اس کے تقاضے بھی پورے کر کے دکھا دیے۔

    متون

    روایت کا پہلا جملہ تین چار طریقوں سے روایت ہوا ہے۔ بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ جملہ فرمایا تھا۔ کچھ روایتوں میں یہ جملہ ’اِنَّ الدِّیْنَ النَّصِیْحَۃُ‘ کے الفاظ میں نقل ہوا ہے اور کچھ میں ’اِنَّمَا الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ‘ کے الفاظ میں۔ ایک روایت میں اسی بات کو ادا کرنے کے لیے ’رَأْسُ الدِّیْنِ النَّصِیْحَۃُ ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ایک روایت میں یہ بات بالکل ہی مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’مَنْ لَّا یُصْبِحُ وَیُمْسِئُ نَاصِحًا لِلّٰہِ و…فَلَیْسَ مِنْہُمْ ‘ ۔

    سوال ’ لِمَنْ‘ مسلم کی روایت میں صرف اسی لفظ تک محدود ہے، لیکن دوسرے متون یہی سوال: ’یَارَسُوْلَ اللّٰہِ لِمَنْ، ’لِمَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ‘ اور اسی طرح ’قَالُوْا‘ کے بجاے ’قُلْنَا‘، ’قُلْتُ‘ اور ’قِیْلَ‘ کے صیغے بھی آئے ہیں۔

    اکثر روایات میں پانچ چیزوں کا ذکر ہے، لیکن بعض روایات میں صرف پہلی تین ہی چیزوں کا ذکر ہے۔ ایک روایت میں ملائکہ کا اضافہ بھی ہے۔

    کتابیات

    مسلم، رقم۵۵؛ ابوداؤد، رقم۴۹۴۴؛ نسائی، رقم۴۱۹۷؛ ترمذی، رقم۱۹۲۶؛ احمد، رقم۳۲۸۱، ۷۹۴۱، ۱۶۹۸۲، ۱۶۹۸۳، ۱۶۹۸۴، ۱۶۹۸۷، ۱۶۹۸۸؛ ابن حبان، رقم۴۵۷۴؛ دارمی، رقم۲۷۵۴؛ بیہقی، رقم۱۶۴۳۴۔

    __________

    ۱؂ یعنی دین کا ستون خیر خواہی ہے یا دین کا بڑا حصہ خیر خواہی ہے۔

    ۲؂ اس جملے کے صحیح معنی بھی اس ترجمے سے واضح نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ بھی حج کی اصل حقیقت کو سامنے رکھ کر بولا ہے۔

    (By Al-Mawrid Scholar Mr. Talib Mohsin)

    Source Link: دین خیر خواہی ہے

You must be logged in to reply.
Login | Register