Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Quran 85:4-7 – The Incident Of Ashab-ul-akhdud

Tagged: 

  • Quran 85:4-7 – The Incident Of Ashab-ul-akhdud

  • Umer

    Moderator September 16, 2023 at 12:10 am

    Molana Amin Ahsan Islahi writes:

    اَصْحٰبُ الْأُخْدُوْدِ‘: ’اَصْحٰبُ الْأُخْدُوْدِ‘ کے تحت مفسرین نے ایک بادشاہ کا قصہ نقل کیا ہے لیکن اس کا کوئی نام یا زمانہ نہیں بتایا ہے۔ بس اتنا ہی بتاتے ہیں کہ اس نے اپنے دور کے بہت سے باایمان نصاریٰ کو محض اس جرم میں آگ کے گڑھوں میں پھنکوا دیا کہ انھوں نے اس کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اگرچہ اہل کتاب کی عقائدی چپقلش کے دور میں ایک دوسرے کو جلانے کے بعض واقعات تاریخوں میں مذکور ہیں لیکن خاص اس واقعہ سے متعلق مفسرین نے جو عجیب و غریب باتیں نقل کی ہیں وہ کسی طرح بھی قابل اعتبار نہیں ہیں، اس وجہ سے ہم ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ یہاں مخاطب، جیسا کہ ہم اشارہ کر چکے ہیں، قریش کے فراعنہ ہیں جو کمزور مسلمانوں کو ظلم و ستم کا ہدف بنائے ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسے مجہول بادشاہ کے انجام سے کیا سبق حاصل کرتے جس کا نام تک نہ ان کو معلوم تھا نہ مفسرین کے علم میں ہے۔ علاوہ ازیں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ’اَصْحٰبُ الْأُخْدُوْدِ‘ کے لیے یہاں جو زجر اور وعید ہے وہ آخرت سے متعلق ہے نہ کہ اس دنیا سے متعلق۔ اگر اس کو اس دنیا سے متعلق مانیے تو اس سے ان کے ظلم کی ایک ہلکی سی تصویر تو ضرور سامنے آتی ہے لیکن ان کا کوئی ایسا عبرت انگیز انجام قرآن نے نہیں بتایا ہے جو قریش کے لیے سبق آموز ہو سکتا۔ یہ بات کہ ان کی بھڑکائی ہوئی آگ نے خود ان کو اور ان کی بستیوں کو جلا کر راکھ بنا دیا صرف مفسرین نے بیان کی ہے۔ قرآن نے کوئی اشارہ اس کی طرف نہیں کیا حالانکہ پیش نظر مقصد کے لیے اصل ظاہر کرنے کی بات یہی تھی۔

    ہمارے نزدیک یہ قریش کے ان فراعنہ کو، جو مسلمانوں کو ایمان سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کی اذیتوں کا تختۂ مشق بنائے ہوئے تھے، جہنم کی وعید ہے۔ ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ اس شقاوت سے باز نہ آئے تو وہ جہنم کی اس خندق میں پھینکے جائیں گے جو کبھی نہ بجھنے والی آگ سے بھری ہو گی۔

    اشقیاء کے انجام کی تصویر: یہ تصویر ہے ان اشقیاء کے انجام کی۔ فرمایا کہ یہ اس وقت کو یاد رکھیں جب وہ اس خندق کے کنارے بیٹھیں گے اور جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ پہلے ان کو اس آگ بھری خندق کے کنارے پر بٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں اور پھر وہ اپنی ایک ایک ظالمانہ حرکت کا مزہ چکھیں گے۔ گویا لفظ ’شُہُوْدٌ‘ یہاں نتیجۂ فعل کے مفہوم میں ہے، جس کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ مجرم کو اس کا اصل ٹھکانا اگر پہلے سے دکھا دیا جائے اور پھر اس کو اس کا مزہ چکھایا جائے تو اس کا عذاب دونا ہو جاتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ مجرموں کو پہلے جہنم کے کناروں پر بٹھایا جائے گا تاکہ وہ دیکھ لیں کہ ان کو کہاں جانا ہے اور پھر ان کو اس میں پھینک دینے کا حکم دیا جائے گا۔ فرعون اور آل فرعون کے متعلق بھی قرآن میں یہ ذکر ہے کہ عالم برزخ سے ان کو صبح و شام دوزخ کی سیر کرائی جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ حرف ’اِذْ‘ گزرے ہوئے زمانہ کے کسی واقعہ کی یاددہانی کے لیے آتا ہے اور ہم نے مستقبل میں پیش آنے والی صورت حال کے بیان کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن اس شبہ کا ازالہ یوں ہو جاتا ہے کہ قرآن میں جو احوال قیامت کی تفصیل جابجا ماضی کے صیغوں سے کی گئی ہے جس کی توجیہ علماء نے یہ کی ہے کہ مستقبل کی تعبیر ماضی کے اسلوب میں اس کی قطعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی وضاحت جگہ جگہ ہو چکی ہے۔

  • Saiyed juned Alimiya

    Member September 16, 2023 at 7:05 am

    Ji jazakomullah

You must be logged in to reply.
Login | Register