Forums › Forums › Sources of Islam › Quran 89:2 – Quran's Oath On Ten Nights
Tagged: Quran
-
Quran 89:2 – Quran's Oath On Ten Nights
Posted by Saiyed juned Alimiya on September 15, 2023 at 4:43 amIsme moon ki har 10 night kis tarah le sakte he isko kese samje?
Saiyed juned Alimiya replied 1 year, 2 months ago 2 Members · 2 Replies -
2 Replies
-
Quran 89:2 – Quran's Oath On Ten Nights
-
Umer
Moderator September 16, 2023 at 12:25 amAmin Ahsan Islahi Sahab writes:
دس راتوں سے مراد: ’وَلَیَالٍ عَشْرٍ‘۔ دس راتوں سے کون سی راتیں مراد ہیں؟ اس سوال کے مختلف جواب ہمارے مفسرین سے منقول ہیں لیکن ان میں سے کسی قول کی کوئی قابل قبول دلیل ان سے منقول نہیں ہے۔ ان کی بنیاد محض اس مفروضہ پر ہے کہ یہاں ان کی قسم کھائی گئی ہے اور جس چیز کی قسم کھائی جائے ضروری ہے کہ وہ کوئی مقدس چیز ہو حالانکہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ قرآن میں جو قسمیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے بیشتر کسی دعوے پر دلیل کے طور پر کھائی گئی ہیں۔ ان کے اندر تقدس تلاش کرنے کے بجائے ہمیشہ ان کے استدلالی پہلو پر نظر جمانی اور دیکھنا یہ چاہیے کہ زیربحث دعویٰ کیا ہے اور قسم کس پہلو سے اس پر شہادت ہے۔ نیز قرآن مجید کے ان دوسرے مواقع کو نگاہ میں رکھنا چاہیے جن میں اسی قسم کا مضمون انہی الفاظ یا ان کے ملتے جلتے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس سورہ کے عمود کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر غور کیا جائے تو عمود سے مطابقت رکھنے والی بات ہو سکتی ہے تو یہ ہو سکتی ہے کہ ’لَیَالٍ عَشْرٍ‘ سے چاند کے عروج و محاق کی دس راتیں مراد لی جائیں۔ چونکہ یہاں یہ لفظ نکرہ کی صورت میں ہے اس وجہ سے ایک ہی ساتھ دس راتیں عروج کی بھی مراد لی جا سکتی ہیں اور دس راتیں زوال کی بھی۔ گویا اس قسم میں چاند کے تدریجی عروج و زوال کی پوری تصویر سامنے رکھ دی گئی ہے۔ سادہ اسلوب میں یہ مضمون سورۂ یٰس میں یوں بیان ہوا ہے:
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوۡنِ الْقَدِیْمِ (یٰسٓ ۳۶: ۳۹) ’’اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں ٹھہرا رکھی ہیں یہاں تک کہ (ان منازل کے طے کرنے میں) وہ کھجور کی سوکھی ٹہنی کے مانند ہو کر رہ جاتا ہے۔‘‘
اس آیت میں چاند کی تصویر چشم تخیل کے سامنے اس طرح آتی ہے گویا وہ ایک فرماں بردار ناقہ ہے جس کی نکیل ایک غیبی ساربان کے ہاتھ میں ہے جو اس کو منزل بہ منزل ایک معین بلندی تک چڑھاتا اور پھر وہاں سے اس کو درجہ بدرجہ اسی طرح اتارتا ہے یہاں تک کہ قطع منازل کے اس پر مشقت سفر میں وہ سوکھ کر کانٹا بن کے رہ جاتا ہے۔ قسم کے اسلوب میں یہی حقیقت یوں بھی وارد ہوئی ہے:
وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ ۵ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ (الانشقاق ۸۴: ۱۶-۱۸) ’’شاہد ہے چاند جب وہ کامل ہو جائے کہ تم بھی درجہ بدرجہ چڑھو گے۔‘‘
یہاں قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نشانی کے ظہور کے لیے ایک معین پروگرام اور تدریجی ارتقاء ہوتا ہے۔ قیامت اللہ تعالیٰ کے عدل کا بدیہی مقتضیٰ ہے۔ اس کا ظہور تو لازماً ہو گا لیکن ہو گا اپنے مقررہ وقت پر۔ ان نظائر کی روشنی میں اگر آیت کی توجیہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قرآن نے چاند کے عروج و زوال کی ان دس دس راتوں کا حوالہ دیا ہے جن میں چاند کا تغیر نہایت نمایاں ہوتا ہے اور وہ دن پر دن سابقہ حالت سے مختلف نظر آتا ہے۔ یہ تغیر اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے شئون و حوادث کے ظہور کے لیے ایک تدریج رکھی ہے۔ حاملہ کی بارآوری اور وضع حمل میں ایک متعین مدت صرف ہوتی ہے۔ کفار و مکذبین کے جرائم پر اللہ تعالیٰ فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ ان کی رسی دراز کرتا جاتا ہے اور جب یہ مہلت ختم ہوتی ہے جبھی ان پر عذاب آتا ہے۔ اسی طرح بحیثیت مجموعی دنیا بھی قیامت کی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور بالتدریج اس کی طرف پہنچے گی اور یہ ٹھیک اس نظام الاوقات کے مطابق ہو گا جو خدا نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہے۔
__
Please also refer to the video below from 28:52 to 29:34
-
Saiyed juned Alimiya
Member September 16, 2023 at 6:56 amJi jazakomullah
Sponsor Ask Ghamidi