Forums › Forums › Islamic Sharia › Food At Darbars And Dragahs
Tagged: Dietary
-
Food At Darbars And Dragahs
Posted by Asad Ali on September 19, 2023 at 12:57 pmWhat Islam guide us about food (langar/nazar/niyaz etc) which is distributed in darbars and dargas?
Umer replied 1 year, 1 month ago 3 Members · 2 Replies -
2 Replies
-
Food At Darbars And Dragahs
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar September 20, 2023 at 12:42 amGod has forbidden to eat the meat of the animals slaughtered at temples of idols, no matter if they are slaughtered in the name of God.
“all that has been slaughtered on idolatrous altars.” (5:3)
The same goes for all kinds of food at temples and shrines.
-
Umer
Moderator September 27, 2023 at 11:51 amGhamidi Sahab writes while explaining Quran 5:3:
اوپر خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے۔ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۵ میں قرآن نے واضح فرمایا ہے کہ اُس کی حرمت کا باعث خود جانور کا ’رِجْس‘، یعنی ظاہری نجاست نہیں، بلکہ ذبح کرنے والے کا ’فِسْق‘ ہے۔ خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کرنا چونکہ ایک مشرکانہ فعل ہے، اِس لیے اُسے ’فِسْق‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ علم و عقیدہ کی نجاست ہے۔ اِس طرح کی نجاست جس چیز کو بھی لاحق ہو جائے، عقل کا تقاضا ہے کہ اُس کا حکم یہی سمجھا جائے۔ قرآن نے یہ دونوں چیزیں اِسی اصول کے تحت ممنوع قرار دی ہیں۔ اِن کے لیے اصل میں ’مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘ اور ’اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِن کی تفسیر لکھتے ہیں:
’’’وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘، ’نُصُب‘ تھان اور استھان کو کہتے ہیں۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے جہاں دیویوں، دیوتاؤں، بھوتوں، جنوں کی خوشنودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں۔ قرآن نے اِس قسم کے ذبیحے بھی حرام قرار دیے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اِن کے اندر حرمت مجرد بارادۂ تقرب و خوشنودی استھانوں پر ذبح کیے جانے ہی سے پیدا ہو جاتی ہے، اِس سے بحث نہیں کہ اِن پر نام اللہ کا لیا گیا ہے یا کسی غیراللہ کا۔ اگر غیراللہ کا نام لینے کے سبب سے اِن کو حرمت لاحق ہوتی تو اِن کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اوپر ’وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ‘ کا ذکر گزر چکا ہے، وہ کافی تھا۔ ہمارے نزدیک اِسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جو مزاروں اور قبروں پر پیش کی جاتی ہیں۔ اُن میں بھی صاحب مزار اور صاحب قبر کی خوشنودی مدنظر ہوتی ہے۔ ذبح کے وقت نام چاہے اللہ کا لیا جائے یا صاحب قبر و مزار کا، اُن کی حرمت میں دخل نام کو نہیں، بلکہ مقام کو حاصل ہے۔ ’وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘، ’اِسْتِقْسَام‘ کے معنی ہیں حصہ یا قسمت یا تقدیر معلوم کرنا۔ ’اَزْلَام‘ جوے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔ عرب میں فال کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ اپنے زعم کے مطابق غیب کے فیصلے معلوم کرتے تھے اور جوے کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ گوشت یا کسی چیز کے حصے حاصل کرتے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ’خمر و میسر‘ کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اونٹ چاہتے ذبح کر دیتے، مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کر لیتے، پھر اُس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے، اُن کو بھونتے، کھاتے، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسا اوقات اِسی شغل بدمستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے اور سیکڑوں جانیں اِس کی نذر ہو جاتیں ــــ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں ’اِسْتِقْسَام بِالْاَزْلَام‘ سے یہی دوسری صورت مراد ہے۔‘‘
(تدبرقرآن۲/۴۵۶)
Sponsor Ask Ghamidi