ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
(تمھارے منکرین اِس کو نہیں مانتے تو دیکھیں کہ) ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا تھا۔
پھر اُس کو (آگے کے لیے) ہم نے پانی کی ایک (ٹپکی ہوئی) بوند بنا کر ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھ دیا۔
پھر پانی کی اُس بوند کو ہم نے ایک لوتھڑے کی صورت دی اور لوتھڑے کو گوشت کی ایک بندھی ہوئی بوٹی بنایا اور اُس بوٹی کی ہڈیاں پیدا کیں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اُس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ سو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا۔
۔۔۔
خلقا آخر کی وضاحت کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں
“یعنی اُس کے حیوانی وجود کی تکمیل کے بعد اُس میں روح پھونکی اور اُسے چیزے دیگر بنا دیا جسے اب انسان کی حیثیت سے دیکھتے ہو۔”
غامدی صاحب کے مطابق اسی مرحلے کی وضاحت ایک حدیث میں ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی روح چار ماہ کی عمر میں داخل کی جاتی ہے۔
«حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق قال: إن احدكم يجمع خلقه فى بطن امه اربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله ملكا فيؤمر باربع كلمات ويقال له: اكتب عمله ورزقه واجله وشقي او سعيد» [صحيح بخاري، باب بدء الخلق: 3208، صحيح مسلم كتاب القدر]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہوتی ہے کہ وہ چالیس دن ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں رہتا ہے، پھر بندھا ہوا خون ہو کر چالیس دن رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیج کر اس میں روح پھونکتے ہیں اور چار چیزوں کا اس کے بارے میں فیصلہ فرماتے ہیں اس کی روزی، اس کی عمر، اس کے اعمال اور اس کا بد بخت یا نیک بخت ہونا۔“