Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam Explanation Of Hadith About People Going To Paradise Without Questions Asked

  • Explanation Of Hadith About People Going To Paradise Without Questions Asked

    Ahmed Khan updated 1 year ago 4 Members · 5 Replies
  • Deleted User 9739

    Member November 12, 2023 at 12:23 am

    The narration does not fit well with the overall concept of accountability in hereafter mentioned in detail in Quran. Please see verse 17:71.

    “17:71 The day We call every people by their record. Then, whoever are given their book by their right, they will read their book, and they will not be wronged in the least.”

    The verse uses the words کل اناس.. which means all human beings without exception will have their record prepared and presented to them, which does not leave any room for anyone getting a salvation “without hisab”. The narration is in contradiction to Quran.

    Moreover, the narration’s content is self-contradictory. If such people as mentioned have been evaluated will be successful because of their listed good deeds, it means they have already undergone the process of accountability of some sort, where their deeds were found heavier in the balance and they offset their wrong doings… which again means that they haven’t got the entry pass to heaven without ‘hisab’, but after proper weighing and accountability. The Quran does not endorse summary trials happening on the DoJ, but clearly states that even an atom’s weight of good or bad deed would be recorded for everyone and presented before them. Pls see 99:7-8.

    The narration is highly suspicious and most likely either fabricated or heavily distorted from its original meaning.

  • Ahmed Khan

    Member November 12, 2023 at 7:30 am

    @umer qureshi

    @Irfan76

    Appreciate if you could elucidate the attached Hadith. Tks

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar November 12, 2023 at 10:38 pm

    (مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا حصين بن نمير، عن حصين بن عبد الرحمن، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: خرج علينا النبي صلى الله عليه وسلم يوما، فقال:” عرضت علي الامم فجعل يمر النبي معه الرجل، والنبي معه الرجلان، والنبي معه الرهط، والنبي ليس معه احد، ورايت سوادا كثيرا سد الافق، فرجوت ان تكون امتي، فقيل هذا موسى وقومه، ثم قيل لي: انظر، فرايت سوادا كثيرا سد الافق، فقيل لي انظر هكذا وهكذا، فرايت سوادا كثيرا سد الافق، فقيل هؤلاء امتك ومع هؤلاء سبعون الفا يدخلون الجنة بغير حساب”، فتفرق الناس ولم يبين لهم، فتذاكر اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: اما نحن فولدنا في الشرك ولكنا آمنا بالله ورسوله ولكن هؤلاء هم ابناؤنا فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:” هم الذين لا يتطيرون، ولا يسترقون، ولا يكتوون، وعلى ربهم يتوكلون”، فقام عكاشة بن محصن، فقال: امنهم انا يا رسول الله؟، قال: نعم، فقام آخر، فقال: امنهم انا، فقال: سبقك بها عكاشة.

    ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حصین بن نمیر نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ہمارے پاس باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (خواب میں) مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں۔ بعض نبی گزرتے اور ان کے ساتھ (ان کی اتباع کرنے والا) صرف ایک ہوتا۔ بعض گزرتے اور ان کے ساتھ دو ہوتے بعض کے ساتھ پوری جماعت ہوتی اور بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوتا پھر میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جس سے آسمان کا کنارہ ڈھک گیا تھا میں سمجھا کہ یہ میری ہی امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت کے لوگ ہیں پھر مجھ سے کہا کہ دیکھو میں نے ایک بہت بڑی جماعت دیکھی جس نے آسمانوں کا کنارہ ڈھانپ لیا ہے۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر دیکھو، ادھر دیکھو، میں نے دیکھا کہ بہت سی جماعتیں ہیں جو تمام افق پر محیط تھیں۔ کہا گیا کہ یہ آپ کہ امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بے حساب جنت میں داخل کئے جائیں گے پھر صحابہ مختلف جگہوں میں اٹھ کر چلے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپس میں اس کے متعلق مذاکرہ کیا اور کہا کہ ہماری پیدائش تو شرک میں ہوئی تھی البتہ بعد میں ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے لیکن یہ ستر ہزار ہمارے بیٹے ہوں گے جو پیدائش ہی سے مسلمان ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بدفالی نہیں کرتے، نہ منتر سے جھاڑ پھونک کراتے ہیں اور نہ داغ لگاتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا کہ ہاں۔ ایک دوسرے صاحب سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے کہ تم سے پہلے عکاشہ کے لیے جو ہونا تھا ہو چکا۔
    ۔۔۔۔۔

    اس حدیث سے ان لوگوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے جو اللہ پر اعتماد،

    بھروسہ اور توکل کرتے ہیں،

    جھاڑ پھونک اور بدشگونی وغیرہ سے بھی بچتے ہیں باوجود یکہ مسنون دعاؤں کے ساتھ دم کرنا اور علاج معالجہ کرنا جائز ہے یہ اللہ رب العالمین پراعتمادوتوکل کی اعلی مثال ہے۔ ( الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 24469

    ستر کا عدد عربی میں کثرت کے اظہار کے لیے آتا ہے۔

  • Umer

    Moderator November 15, 2023 at 11:46 pm

    This narration was studied as Part of Hadith Project.

    جنت کے اعمال (۳) - Hadith No. 4

    __

    Following is the relevant excerpt:

    ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دیر تک باتیں کرتے رہے۔وہ کہتے ہیں کہ اِس کے بعد ہم اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ پھر جب صبح ہوئی اور ہم دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آج رات (خواب میں) مختلف انبیا اور اُن کی امتوں کو میرے سامنے پیش کیا گیا۔ چنانچہ ایک نبی گزرے تو اُن کے ساتھ صرف تین آدمی تھے، ایک نبی گزرے تواُن کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت تھی، ایک نبی گزرے تو اُن کے ساتھ ایک گروہ تھا۔ اِسی طرح ایک نبی گزرے تو اُن کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا، یہاں تک کہ میرے پاس سے موسیٰ بن عمران کا گزر ہوا جن کے ساتھ بنی اسرائیل کی ایک بھیڑ تھی۔ اُن کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا تومیں نے پوچھا: پروردگار ،یہ کون لوگ ہیں؟ ارشاد ہوا: یہ آپ کے بھائی موسیٰ بن عمران ہیں اور اِن کے ساتھ بنی اسرائیل میں سے اُن کے پیرو ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ میں نے پوچھا: پروردگار، پھر میری امت کہاں ہے؟ ارشاد ہوا: اپنی دائیں جانب دیکھیے۔ میں نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ٹیلے ہیں ، مکہ کے ٹیلے اور لوگوں کے چہرے ہی چہرے ہیں،وہ اُن سے بھرے ہوئے ہیں۔پھر ارشاد ہوا: اپنے بائیں جانب دیکھیے ۔میں نے دیکھا تو دور افق تک چہرے ہی چہرے تھے اور وہ بھی اُن سے بھرا ہوا تھا۔میں نے یہ دیکھاتو پوچھا:پروردگار،یہ کون ہیں؟ ارشاد ہوا: یہ تمھاری امت ہے۔ آپ نے فرمایا: پھر پوچھا گیا: کیا تم راضی ہو؟ میں نے عرض کیا :پروردگار،میں ہر لحاظ سے راضی ہوں۔آپ کا بیان ہے کہ پھر مجھے بتایا گیا کہ اِن لوگوں کے ساتھ ستر ہزار ایسے بھی ہوں گے جو بغیر کسی حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۱۰۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر عکاشہ بن محصن کھڑے ہو ئے اور کہنے لگے :اللہ کے نبی، اپنے پروردگار سے دعا کیجیے کہ وہ مجھے بھی اُن میں شامل کرے۔آپ نے دعا کی: پروردگار، اِس کو اُن میں شامل کر دے۔ پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور اُس نے عرض کی: اللہ کے نبی، اپنے رب سے میرے لیے بھی دعا کیجیے کہ وہ مجھے بھی اُنھی میں شامل کرے۔راوی کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اِس میں تو اب عکاشہ تم پر سبقت لے گیا ۔راوی کا بیان ہے کہ اِس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے ماں باپ تم لوگوں پر قربان ہوں ، اگر تم اُن ستر ہزار میں شامل ہو سکو، (جن کا ذکر ہوا) تو اُن میں شامل ہونے کی کوشش کرنا۔ اگر اِس سے قاصر رہ جاؤ تو کوشش کرو کہ ٹیلے والوں میں شامل ہو جاؤ۔ اور اگر یہ بھی نہ کر سکو توافق تک پھیلے ہوئے لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو۔ اُس میں بڑی گنجایش ہے،اِس لیے کہ میں نے بہت سے لوگوں کو وہاں جمع ہوتے اور ایک دوسرے سے ملتے ہوئے دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اِس کے بعد آپ نے فرمایا: میری تمنا ہے کہ میری امت میں سے میری پیروی کرنے والے جنت کا ایک چوتھائی ہوں۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سن کراللہ اکبر کہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ جنت کے ایک تہائی ہو، عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: ہم نے پھر تکبیر بلند کی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ جنت کا نصف ہو۔عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:ہم نے پھر اللہ اکبر کہا۔اِس کے بعد آپ نے( اہل جنت کے بارے میں سورۂ واقعہ کی) وہ آیتیں تلاوت فرمائیں جن میں کہا گیا ہے:’’وہ اگلوں میں بھی ایک بڑا گروہ ہوں گے، اور پچھلوں میں بھی ایک بڑا گروہ‘‘ ۔وہ کہتے ہیں کہ اب لوگوں میں بحث شروع ہو گئی کہ یہ ستر ہزار کون ہوں گے۔ اِس پر بعض لوگوں نے کہا:ہمارا خیال ہے کہ اِس سے وہ لوگ مراد ہیں جواسلام کی حالت میں پیدا ہوئے اور اُسی پر عمل کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پھر اُن کی یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا: نہیں، ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ جھاڑ پھونک کریں گے، نہ جسم کو داغیں گے، نہ برے شگون لیں گے اور (زندگی کے تمام معاملات میں) اپنے رب ہی پر بھروسا رکھیں گے۔۱۱

    __

    Footnotes of Translation:

    ۱۰۔یعنی اُن کا معاملہ ایسا صاف ہو گا کہ کسی حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہو گی۔ وہ اِس کے بغیرہی جنت میں داخل ہو جائیں گے، جیسے صدیق و فاروق اور اِسی شان کے بعض دوسرے صحابہ و تابعین۔

    ۱۱۔یعنی شرک کی ادنیٰ صورتوں سے بھی محفوظ ہوں گے اور اپنے علم و عمل میں تفویض اور توکل کے اُس مقام پر ہوں گے جسے قرآن مجید میں بعض موقعوں پر اپنے آپ کو اپنے رب کے حوالے کر دینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اِسی کے حاملین میں انسانی تاریخ کی نمایاں ترین ہستی ہیں۔

    __

    Footnotes of Matan:

    (From 10 to 19 – Only footnote 10 mentioned below)

    ۱۰۔اِس حدیث کا متن اصلاً مستدرک حاکم، رقم۸۸۲۲سے لیا گیا ہے ۔اِس کے راوی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ اُن سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں نقل ہوئی ہے:

    مسند طیالسی،رقم۳۴۷، ۴۰۰۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۳۰۱۶۔مسند ابن ابی شیبہ، رقم۳۵۲، ۴۰۲۔ مسنداحمد، رقم۳۶۷۵،۳۶۹۰،۳۸۵۷۔مسند بزار،رقم۱۶۳۸۔مسند ابی یعلیٰ، رقم۵۲۸۱۔مسند شاشی،رقم ۶۰۵،۲۶۰۔صحیح ابن حبان، رقم۶۲۱۸۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم۹۶۵۵۔مستدرک حاکم، رقم ۸۳۴۵۔السنن الکبریٰ، بیہقی۱۹۴۴۔

    ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے علاوہ یہی مضمون جن دوسرے صحابہ سے نقل ہوا ہے، وہ یہ ہیں:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ،صدی بن عجلان رضی اللہ عنہ،انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ،سہل بن سعد رضی اللہ عنہ،ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ،ثوبان رضی اللہ عنہ،آمنہ بنت محصن رضی اللہ عنہا، عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ۔

    اِن صحابہ سے یہ روایت درج ذیل مصادر میں منقول ہے:

    مصنف ابن ابی شیبہ،رقم۳۱۰۳۱۔مسند اسحاق بن راہویہ، رقم۵۷۔ مسند احمد، رقم ۷۸۱۷،۸۹۹۴، ۹۶۶۷، ۱۹۴۶۶،۱۹۵۱۶۔سنن دارمی،رقم۲۷۲۰،۲۷۳۶۔صحیح بخاری،رقم۳۱۸۱، ۵۲۹۷، ۵۳۳۸، ۵۳۹۰، ۶۰۸۷۔ صحیح مسلم، رقم ۳۲۳،۳۲۴،۳۲۵،۳۲۸۔مسند بزار، رقم ۹۱۴،۸ ۱۳۰، ۲۱۶۳۔السنن الکبریٰ،نسائی ، رقم۷۳۰۴۔ صحیح ابن حبان ۶۲۲۳، ۶۵۶۸، ۷۴۰۱۔المعجم الکبیر، طبرانی،رقم۱۵۰۲۵۔المعجم الاوسط،طبرانی،۹۳۹۹۔مستدرک حاکم، ۴۹۵۹۔

  • Ahmed Khan

    Member November 16, 2023 at 4:39 am

    @zunnun Above is for your information.

    @Irfan76 @uq4454819 JazakAllah for the guidance.

You must be logged in to reply.
Login | Register