Forums › Forums › Sources of Islam › سود مال کو گھٹاتا ہے
-
سود مال کو گھٹاتا ہے
Posted by Muhammad Asaad on December 12, 2023 at 10:17 pmسودا مال کو گھٹاتا ہے۔۔۔۔۔مگر جب دیکھا جائے تو سود والا امیر سے امیر ہورہا ہے۔۔۔۔کیا یہ قرآن سے تضاد نہیں؟؟؟
Ahsan replied 11 months, 3 weeks ago 3 Members · 5 Replies -
5 Replies
-
Faisal Haroon
Moderator December 12, 2023 at 10:50 pm“سودا مال کو گھٹاتا ہے”
قرآن نے ایسی کوئی بات نہیں کہی- یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس ایپ میں سوال پوچھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس طرح کے سوالات کے ساتھ ریفرینس دیئے جائیں-
-
Muhammad Asaad
Member December 12, 2023 at 11:50 pmالقرآن – سورۃ نمبر 2 البقرةآیت نمبر 276
ترجمہ:اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو ناشکرا گنہگار ہو۔سود مٹانے کا کیا معنی ہوئے پھر؟؟؟
-
Ahsan
Moderator December 12, 2023 at 11:57 pmThe verse you mentioned is in continuation of verse 275. The complete translation is
اِس کے برخلاف جو لوگ سود کھاتے ہیں، [721] وہ قیامت میں اٹھیں گے تو بالکل اُس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا [722] ہو۔ یہ اِس لیے کہ اُنھوں نے کہا ہے کہ بیع بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا [723] ہے۔ (اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے اُسے حرام ٹھیرا یا ہے)، لہٰذاجسے اُس کے پروردگار کی تنبیہ پہنچی [724] اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ لے چکا، سو لے چکا، ـ (اُس کے خلاف کوئی اقدام نہ ہو گا) اور اُس کا معاملہ اللہ کے حوالے[725] ہے۔ اور جو (اِس تنبیہ کے بعد بھی) اِس کا اعادہ کریں گے تو وہ دوزخ کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں [726] گے۔(اُس دن) اللہ سود کو مٹا دے گا [727] اور خیرات کو بڑھائے گا [728] اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی ناشکرے اور کسی حق تلفی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
721 اصل میں لفظ ’رِبٰوا‘ استعمال ہوا ہے۔ اردو زبان میں اِس کے لیے سود کا لفظ مستعمل ہے اور اِس سے مرادوہ اضافہ ہے جو ایک قرض دینے والا مقروض سے اپنی اصل رقم پر محض اِس لیے وصول کرتا ہے کہ اُس نے ایک خاص مدت کے لیے اُس کو یہ رقم استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ قرض کسی غریب اور نادار کو دیاگیا ہو یا کسی کاروباری اور رفاہی اسکیم کے لیے، اِس چیز کو ربا کی حقیقت کے تعین میں کوئی دخل نہیں ہے۔ عربی زبان میں ربا کا اطلاق قرض دینے والے کے مقصد اور مقروض کی نوعیت و حیثیت سے قطع نظر محض اُس اضافے ہی پر ہوتا ہے جو کسی قرض کی رقم پر لیا جائے۔ چنانچہ یہ بات سورۂ روم (۳۰) کی آیت ۳۹ میں خود قرآن نے واضح کر دی ہے کہ اُس کے زمانۂ نزول میں سودی قرض زیادہ تر کاروباری لوگوں کے مال میں جا کر بڑھنے کے لیے دیے جاتے تھے۔ اِس کے لیے آیت میں ’لِیَرْبُوَا فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ‘ (اِس لیے کہ وہ دوسروں کے مال میں پروان چڑھے) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ تعبیر، ظاہر ہے کہ غریبوں کو دیے جانے والے سودی قرضوں کے لیے کسی طرح موزوں نہیں ہے، بلکہ صاف بتاتی ہے کہ اُس زمانے میں سودی قرض بالعموم تجارتی مقاصد کے لیے دیا جاتا تھا اور اِس طرح قرآن کی اِس تعبیر کے مطابق گویا دوسروں کے مال میں پروان چڑھتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ سود کا تعلق صرف اُنھی چیزوں سے ہے جن کا استعمال اُن کی اپنی حیثیت میں اُنھیں فنا کر دیتا اور اِس طرح مقروض کو اُنھیں دوبارہ پیدا کر کے اُن کے مالک کو لوٹانے کی مشقت میں مبتلا کرتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس پر اگر کسی اضافے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ عقل و نقل، دونوں کی رو سے ظلم ہے۔ لیکن اِس کے برخلاف وہ چیزیں جن کے وجود کو قائم رکھ کر اُن سے استفادہ کیا جاتا ہے اور استعمال کے بعد وہ جس حالت میں بھی ہوں، اپنی اصل حیثیت ہی میں اُن کے مالک کو لوٹا دی جاتی ہیں، اُن کے استعمال کا معاوضہ کرایہ ہے اور اُس پر ، ظاہر ہے کہ کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
722 اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین کی چھوت بھی اُن اسباب میں سے ہے جن سے آدمی بعض اوقات پاگل ہو جاتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’۔۔۔نیک بندوں پر تو ارواح خبیثہ کا اثر اِس سے زیادہ نہیں ہوتا کہ اُن کو کوئی اذیت یا آزمایش پیش آ جائے، لیکن جن کی روحیں خود خبیث ہوتی ہیں، جس طرح اُن کا قلب شیطان کی مٹھی میں ہوتا ہے، اُسی طرح کبھی کبھی اُن کے عقل و دماغ، سب پر شیطان کا تسلط ہو جاتا ہے او روہ ظاہر میں بھی بالکل پاگل ہو کر کپڑے پھاڑتے، گریبان چاک کرتے، منہ پر جھاگ لاتے اور پریشان حال، پراگندہ بال، جدھر سینگ سمائے، اُدھر آوارہ گردی اور خاک بازی کرتے پھرتے ہیں۔‘‘
(تدبر قرآن ۱/ ۶۳۱)
723 یہ قرآن نے سود خواروں کے قیامت میں پاگلوں کی طرح اٹھنے کی وجہ بتائی ہے کہ وہ اِس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ نے بیع و شرا کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرا دیا ہے، دراں حالیکہ اِن دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک تاجر اپنے سرمایے پر نفع لے سکتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایے پر نفع کا مطالبہ کرے تو وہ آخر مجرم کس طرح قرار پاتا ہے؟ قرآن کے نزدیک یہ ایسی پاگل پن کی بات ہے کہ اِس کے کہنے والوں کو جزا اور عمل میں مشابہت کے قانون کے تحت قیامت میں پاگلوں اور دیوانوں کی طرح اٹھنا چاہیے۔ استاذ امام سود خواروں کے اِس اظہار تعجب پر تبصرہ کرتے ہوئے اِن آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اِس اعتراض سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ سود کو بیع پر قیاس کرنے والے پاگلوں کی نسل دنیا میں نئی نہیں ہے، بلکہ بڑی پرانی ہے۔ قرآن نے اِس قیاس کو … لائق توجہ نہیں قرار دیا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بداہتاً باطل اور قیاس کرنے والے کی دماغی خرابی کی دلیل ہے۔ ایک تاجر اپنا سرمایہ ایک ایسے مال کی تجارت پر لگاتا ہے جس کی لوگوں کو طلب ہوتی ہے۔ وہ محنت، زحمت اور خطرات مول لے کر اُس مال کو اُن لوگوں کے لیے قابل حصول بناتا ہے جو اپنی ذاتی کوشش سے اول تو آسانی سے اُس کو حاصل نہیں کر سکتے تھے اور اگر حاصل کر سکتے تھے تو اُس سے کہیں زیادہ قیمت پر، جس قیمت پر تاجر نے اُن کے لیے مہیا کر دیا۔ پھر تاجر اپنے سرمایہ اور مال کو کھلے بازار میں مقابلے کے لیے پیش کرتا ہے اور اُس کے لیے منافع کی شرح بازار کا اتار چڑھاؤ مقرر کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اِس اتار چڑھاؤ کے ہاتھوں بالکل دیوالیہ ہو کر رہ جائے اور ہو سکتا ہے کہ کچھ نفع حاصل کر لے۔ اِسی طرح اِس معاملے میں بھی اُس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں کہ وہ ایک بار ایک روپے کی چیز ایک روپے دو آنے یا چار آنے میں بیچ کر پھر اُس روپے سے ایک دھیلے کا بھی کوئی نفع اُس وقت تک نہیں کما سکتا، جب تک اُس کا وہ روپیہ تمام خطرات اور سارے اتار چڑھاؤ سے گزر کر پھر میدان میں نہ اترے اور معاشرے کی خدمت کر کے اپنے لیے استحقاق نہ پیدا کرے۔ بھلابتائیے، کیا نسبت ہے ایک تاجر کے اِس جاں باز ،غیور اور خدمت گزار سرمایے سے ایک سود خوار کے اُس سنگ دل، بزدل، بے غیرت اور دشمن انسانیت سرمایے کو جو جوکھم تو ایک بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لیکن منافع بٹانے کے لیے سر پر سوار ہو جاتا ہے؟‘‘
( تدبر قرآن ۱/۶۳۲)
724 اصل میں ’فَمَنْ جَآئَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن میں ’مَوْعِظَۃٌ‘ کے لیے فعل مذکر آیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس کی تانیث غیر حقیقی ہے اور غیر حقیقی تانیث کے لیے فعل بعض اوقات لفظ کے مفہوم کے لحاظ سے آ جاتے ہیں۔
725 یعنی دنیا میں کوئی اقدام نہیں کیا جائے گا، لیکن آخرت کے حوالے سے معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کی پکڑ سے بچنے کے لیے اتنی بات کافی نہیں ہے کہ آدمی نے سود لینا چھوڑ دیا۔ وہاں تو اللہ تعالیٰ یہ بھی دیکھیں گے کہ اِس موقع پر دل کی حالت کیا رہی اور پچھلے مظالم کی تلافی کے لیے کیا کچھ کیا گیا۔
726 اِس سزا کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا یہ رویہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اِس حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ صریح کفر ہے اور اِس کی سزا وہی ہونی چاہیے جو کافروں کے لیے مقرر ہے۔
727 یعنی سود خواروں کے لیے قیامت میں صرف حسرت و ندامت ہو گی۔ وہ دیکھیں گے کہ دنیا میں اُن کے لاکھوں وہاں ایک کوڑی بھی نہیں رہے۔
728 ترمذی، رقم ۶۶۲ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی وضاحت اِس طرح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقے کو قبول کرتا اور اُسے اپنے داہنے ہاتھ سے لیتا ہے۔ پھر وہ تمھارے لیے اِس طرح اُس کی پرورش کرتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ تمھارا دیا ہوا ایک لقمہ اللہ کے ہاں احد پہاڑ بن جاتا ہے۔
-
-
Ahsan
Moderator December 12, 2023 at 10:55 pmPlease always provide reference to the verse. If your question is related to verse 30:39. So the verse says
وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّیَرۡبُوَا۠ فِیۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ زَکٰوۃٍ تُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ ﴿﴾۳۹
ہ سودی قرض [148] جوتم اِس لیے دیتے ہو کہ دوسروں کے مال میں شامل ہو کر بڑھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا [149] اور جو صدقہ [150] تم دیتے ہو کہ اُس سے اللہ کی رضا چاہتے ہو تو اُسی کے دینے والے ہیں جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑھا رہے [151] ہیں۔
148 اصل میں لفظ ’رِبَا‘آیا ہے۔ یہ یہاں ’تسمیۃ الشیء بما یؤل إلیہ‘کے اسلوب پر استعمال ہوا ہے، یعنی اُس مال کے لیے جو سود کما لائے گا۔
149 یعنی دنیا میں تو یقیناً بڑھتا ہے اور تم دس کے بیس اور بیس کے سو بنا لیتے ہو، لیکن اللہ کے ہاں اُس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی،بلکہ الٹا تمھارے لیے وبال بن جاتا ہے، اِس لیے کہ جو کچھ بڑھا کر لاتا ہے، دوسروں پر ظلم کرکے لاتا ہے۔
150 اصل میں لفظ ’زَکٰوۃ‘استعمال ہوا ہے، لیکن چونکہ نکرہ ہے، اِس لیے اِسے اصطلاحی مفہوم میں نہیں، بلکہ عام صدقات کے مفہوم میں لینا چاہیے۔
151 یہ اُس وعدے کی طرف اشار ہ ہے جو انفاق کرنے والوں کے ساتھ خدا نے کر رکھا ہے کہ وہ اُس کا اجر اُنھیں اتنا بڑھا کر دے گا کہ وہ نہال ہو جائیں گے۔اِس سے، اگر غور کیجیے تو قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ آخرت کو پانے کے لیے بعض اوقات دنیا کو کھونا پڑتا ہے۔ لیکن یہ کوئی خسارے کا سودا نہیں ہے، اِس لیے کہ خدا کی اِس ابدی بادشاہی کے مقابلے میں دنیاے دوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اِسی طرح یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ اُس زمانے میں سودی قرض بالعموم تجارتی اور کاروباری مقاصد ہی کے لیے دیے جاتے تھے اور اِس طرح قرآن کی تعبیر کے مطابق دوسروں کے مال میں شامل ہو کر بڑھتے تھے۔ بالبداہت واضح ہے کہ ضرورت مندوں کو دیے جانے والے صرفی قرضوں کے لیے یہ تعبیر کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔آیت کے الفاظ پر تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ سود خوار کے مال کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے سانڈ سے تشبیہ دی ہے جو دوسرے کی چراگاہ میں چرکر موٹا ہوتا ہے۔ اِس وجہ سے اُس کی فربہی میں کوئی خیرو برکت نہیں ہے۔ خیرو برکت صرف اُس مال میں ہے جو اپنی چراگاہ میں چر کر پروان چڑھتا ہے،پھر خدا کی رضا جوئی اور اداے حقوق کی راہ میں قربان ہوتا ہے۔‘‘
(تدبرقرآن۶/ ۹۹)
-
Muhammad Asaad
Member December 12, 2023 at 11:49 pmجزاک اللہ سر
-
Sponsor Ask Ghamidi