أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” خَمْسُ فَوَاسِقَ يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ”.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ موذی جانور ہیں جو حرم اور حرم سے باہر مارے جا سکتے ہیں: کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا، بچھو، اور چوہیا“۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2884]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17283) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
یہ حدیث صحیح ہے۔
رسول اکرمﷺ کے اس قسم کے احکام دین کا تقاضا نہیں، بلکہ سربراہ مملکت اور کی حیثیت سے انتظامی نوعیت کے فیصلے ہیں۔ سیاق و سباق ایسی روایات کا عموما ساتھ میں موجود نہیں ہوتا۔ ایسے فرمان بہرحال کسی ضرورت سے جاری کیے جاتے ہیں جیسا کہ چوہوں کی کثرت ہو جائے تو آج بھی حکومتیں چوہا مار مہم شروع کر دیتی ہیں۔
نیز بعض لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو اپنی طبعی نرمی کی وجہ سے کوئی بھی جانور نہ مارنا چاہیں انھیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ مجبوری میں اور ضرورت پڑنے پر موذی جانوروں کو مارا بھی جا سکتا ہے۔
تاہم بلا وجہ اور بلا ضرورت کسی جاندار کی جان بھی نہیں لی جا سکتی۔