Forums › Forums › Islam And State › How Can We Consider Zakat And Tax Given To A Non-Muslim State As One?
-
How Can We Consider Zakat And Tax Given To A Non-Muslim State As One?
Posted by Asad on February 25, 2024 at 4:57 amSawal yai hai: jese Zakat nazme Ijtemahi se related hai to Ghair Islami riyast mai Zakat ke system ko to ikhtiyar nahi kiya jata kyun ke zakat ke apne kuch takaze hain or tax ke system ke apne kuch takaze hain to dono systems ko ek sath ikhiyar nahi kiya jaskta ek riyasat main, yai mare khyal mai zulm hai logon pr. Kyun ke agr yai zakat ka hukum nazme Ijtemahi se related hai to riyasat hi ko ikhtiyar hai ke wo dono systems zakat ya tax mai se kis ko ikhtiyar kre. To is khyal mai koi ghalti hai to wazahat farmayein or yai sawal ap live session mai ghamdi sahab se kren khud.
Asad replied 9 months, 2 weeks ago 2 Members · 16 Replies -
16 Replies
-
How Can We Consider Zakat And Tax Given To A Non-Muslim State As One?
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar February 27, 2024 at 5:52 amزکوۃ حکومت جن مقاصد کے لیے لیتی ہے ٹیکس انھیں مقاصد کے لیے لیا جاتا ہے۔ یہ اجتماعی مفادات کے کام ہیں۔ ہمارے نزدیک چوں کہ کسی شخص کو زکوۃ کا مالک بنانے کی کوءی شرط نہیں اور نہ ہی مسلم اور غیر مسلم کی شرط ہے، اس لیے زکوۃ غیر مسلم حکومت کو دینا بھی درست ہے۔ جتنا ٹیکس دیں اسے زکوۃ سمجھ کر دے سکتے ہیں۔
-
Asad
Member March 4, 2024 at 11:31 amمیں اپنے سوال کو مزید واضح کرتا ہوں
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ پاکستان ایک قومی ریاست کے طور پر وجود میں آیا ہے اصلاً یہ اسلامی ریاست نہیں ہے اپنے نفاذ کے لحاظ سے جیسے اگر اسلامی ریاست ہوتی تو اُسکا یہ تقاضا ہے کہ وہ ان مندرجہ ذیل باتوں کو پورا کرے:
جمعہ کا ممبر حکمران کے لیے خاص کیا گیا ہے تو اپنا نمائندہ بٹھائیں ،
زکوٰۃ کے نظام کو اختیار کریں پوری طرح بجائے ٹیکس کے سسٹم کو۔
سودی نظام سے مکمل پرہیز کریں۔
اور جو حکم ہیں شریعت کے مطابق انکو اختیار کرے۔
تو غامدی صاحب زکوٰۃ کو عبادت کی فہرست میں رکھتے ہیں اصلاً اس بات میں کوئی خرابی نہیں ہے لیکن زکوٰۃ ایک ایسا معاملہ ہے کہ یہ وقت کے تقاضے کے مطابق اس حکم کو اختیار کیا جائے گا،
قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ “جو لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں یہی سچے مومن ہیں”، تو اسکا مطلب زکوٰۃ لینے والے بھی موجود ہیں۔
اور اگر نا ہوں تو سب اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جیسے اگر کوئی جنگل میں آباد ہو تو وہ وہاں نماز، روزہ پر تو عمل کرے گا لیکن زکوٰۃ پر نہیں کر سکے گا۔ تو اس پر کوئی مواخذہ بھی نہیں۔
تو پاکستانی ریاست میں ٹیکس کے سسٹم کو اختیار کیا گیا تو سب مسلمان زکوٰۃ کے حکم سے مستثنیٰ ہیں اس لیے کہ حکومت نے منفرد طریقہ اختیار کیا ہے حکومت چلانے کے لیے اور لوگوں کو انکا حق دینے کے لیے۔
اب اس زاویے پر روشنی ڈالیں۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 5, 2024 at 1:56 amزکوۃ کا فریضہ عاءد ہونے کے لیے حکومت یا نظم اجتماعی کا ہونا شرط نہیں ہے۔ زاءد از ضرورت مال ہونا ضروری ہے۔ حکومت ہوگی تو اسے دیا جاءے گا ورنہ انفرادی طور پر ادا کریں گے۔ یہ چیز اسے ٹیکس سے مختلف بنا دیتی ہے۔
حکومت غیر مسلموں کی ہو تو ان کو بھی زکوۃ بنعنوان ٹیکس ادا کیا جاءے گا۔
پاکستان میں حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہ اگر چند دیگر باتوں مین شریعت کے احکام اختیار نہیں کرتے تو یہ کوتاہی ہے۔ مگر جن باتوں پر عمل کرتی ہے اس کو بھی نہ ماننے کی کوءی وجہ نہیں۔
-
Asad
Member March 5, 2024 at 2:18 amیہی میرا سوال ہے کہ زکوٰۃ لینے والے کون ہونگے اور ان کو حق کس نے دیا ہے؟
اور زکوٰۃ کی علت بھی بتائیں جو دین اخذ کرنے بنیادی ذرائع وہاں سے۔
زکوٰۃ یقیناً کوئی صدقہ نہیں ہے
اللہ تعالیٰ انفاق فی سبیل اللہ کو الگ سے بیان کرتے ہیں۔
لیکن زکوٰۃ نہ دینے والے کے خلاف اقدام کیا جاسکتا ہے۔
جبکہ انفاق فی سبیل اللہ میں ایسا نہیں ہوتا۔
اسمیں کوئی شرط بھی عائد نہیں کی بلکہ کہا جو چاہو جتنا چاہو خرچ کرو۔
۔ اور یہ حکم بھی عبادت ہی ہے
کیا کہتے ہیں آپ اس پر ؟
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 5, 2024 at 2:47 amزکوۃ صدقات میں شامل ہے دیکھیے ٓآیت ۹: ۶۰
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اسے لینے کا اختیار مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو ہے جیسا کہ اسی آیت کے سیاق و سباق میں رسول اللہ کو اس کا اختیار دیا گیا ہے سربراہ ریاست کی حیثیت سے نہ کہ محض نبی ہونے کی حیثیت سے۔ دیکھیے آیت ۹: ۱۰۳
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
چناں چہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو حق ہے کہ زکوۃ وصول کرے۔ اس کے لیے کا کامل الایمان ہونا یا ہر طرح سے دین کے ہر حکم پر عمل پیرا ہونا لازم نہیں ہے۔ وہ اگر زکوۃ سے متعلق اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں تو انھیں زکوۃ دی جاءے گی۔
غیر مسلم حکومت کو ٹیکس دیا ہی جاتا ہے۔ اجتہادی طور پر یہ بتایا گیا کہ اس ٹیکس کو زکوۃ شمار کیا جا سکتا ہے۔ کوءی مسلمان چاہے تو انھیں ٹیکس الگ دے اور زکوۃ اپنے طور پر دے دے۔
-
Asad
Member March 5, 2024 at 3:33 amآپ کے جواب میں اوپر جو آپ نے بیان کیا وہ درست ہے اور اسے تو میں پہلے ہی مانتا ہوں۔
سوال اجتہادی آراء پر اُٹھا ہے
اس اجتہاد میں دو احتمال پیدا ہوگئے ہیں کہ
ٹیکس کے بعد زکوٰۃ دینا بھی لازم ہوگیا ہے
اور ٹیکس ہی اصلاً زکوٰۃ ہے کیونکہ منہا کر سکتے ہیں۔
جبکہ ٹیکس کا سسٹم پہلے ہی نافذ العمل ہے تو پھر مسلمان زکوٰۃ کے حکم سے مستثنٰی ہیں اس ریاست میں جب تک ہیں۔
اس لیے کہ لینے والے اصلاً حکمران تھے یعنی رسالت مآب ﷺ نے لی اس کے علاوہ کسی اور نے الگ سے لینے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اور اس وقت کوئی ٹیکس کا سسٹم نہیں تھا۔
اور زکوٰۃ اور ٹیکس دونوں متوازی ہیں ایک دوسرے کے اور دونوں الگ الگ فرم ورک ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے تقاضے ہیں لیکن مقصد دونوں کے ایک ہی ہیں یعنی نظم کو چلانے کے لیے۔ تو پھر ایک ہی سسٹم کو اختیار کیا جائے گا۔
اور نظم کا حق ادا کر رہے ہیں تو اللہ کی طرف سے اجر بھی ہے۔
اس تصوّر پر آپ بھی روشنی ڈالیں اور یہی تصوّر غامدی صاحب کے سامنے رکھیں جیسے لکھا ہے۔
ایک چیز مجھے زکوٰۃ کا نصاب جو دین نے مقرر کیا ہے اور جہاں مقرر کیا ہے اُسکا حوالہ چاہیے میں پڑھنا چاہتا ہوں کہ وہاں کیا حکمت پیش نظر ہے۔
تاکہ اسکو اطلاق میں ڈھالنا آسان ہو۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 5, 2024 at 3:43 amیہ جملہ “ٹیکس کا سسٹم پہلے ہی نافذ العمل ہے تو پھر مسلمان زکوٰۃ کے حکم سے مستثنٰی ہیں” اس لیے درست نہیں کہ زکوۃ ادا کی گءی ہے اس لیے مستثنی ہونے کا کوءی مطلب نہیں۔
زکوۃ لینے کا مطالبہ حضرت ابو بکر نے کیا اور زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کی۔
مسلمانوں کی حکومت میں شہری حقوق تبھی حاصل ہوں گے جب نماز کے ساتھ زکوۃ بھی ادا کی جاءے گی۔ دیکھیے آیت ۹: ۱۱
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
زکوۃ کی شرح جو خدا کے دین میں مقرر ہے اس سے حکومت کے ٹیکس نافذ کرنے کی حد مقرر ہوتی ہے۔ اس سے زاءد ٹیکس شہریوں کی رضامندی کے بغیر نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ فرق ہے جو زکوۃ کا نظام اختیار کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
ہم یہی چاہتے ہیں کہ زکوۃ کا نظام اختیار کیا جاءے مگر جب تک یہ نہیں ہوتا ایک عام مسلمان کے لیے اپنی زکوۃ کی اداءیگی جس طرح ممکن ہے وہ بتا دی گءی ہے۔
زکوۃ کا نصاب غنی یعنی دولت مندی کے کم سے کم معیار کو سامنے رکھ کر طے کیا گیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے غامدی صاحب کی کتاب میزان میں زکوۃ کا باب۔
-
Asad
Member March 5, 2024 at 4:07 amیہ بات صحیح ہے زکوٰۃ کا مطالبہ حضرت ابو بکر نے کیا لیکن نظم اُن کے ہاتھ میں تھا اس لیے۔
نظم جس کے ہاتھ میں ہے صرف وہ مطالبہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
ہمارے حکرانوں نے مطالبہ کیا ہے؟ یعنی پاکستان میں۔
جو آیت اپنے پیش کی ہے اُسکا اپنا ایک موقع محل ہے۔ شرائط پوری ہونگی تو حکم نافذ العمل ہے۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 5, 2024 at 4:17 amہمارے حکمرانوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا۔ ہمیں انتخاب دیا ہے۔
حضرت عثمان نے ایک موقع پر اعلان کر دیا تھا کہ حکومت زکوۃ وصول نہیں کرے گی کیوں کہ حکومت کے پاس خزانے میں مال بہت کافی تھا۔ چناں چہ مسلمانوں نے اپنے طور پر زکوۃ ادا کی تھی۔
جب حکمران مطالبہ نہ کرے تو اب ہمارے پاس انتخاب ہے چاہے تو حکمران کو دیں اور چاہے خود ادا کر دیں۔
-
Asad
Member March 5, 2024 at 4:37 amیہی اصل خرابی ہے دو کشتیوں میں سوار ہیں
پھر وہی سوال پیدا ہو جائے گا کہ وہ تو اسلامی ریاست تھی
تو وہاں حکمران یہ انتخاب دے سکتا ہے۔
قومی ریاست میں ایک چیز اصول میں طے ہوگئی ہے کہ ٹیکس لیا جائے گا تو اس کے بعد وہ کیا زکوٰۃ کا انتخاب دیں گے بلکہ ہر شخص کی اپنی صوابدید پر ہے یعنی پھر وہ قیامت کے دن مؤاخذہ میں نہیں اے گا۔
اس لیے کے ریاست نے اپنے طور پر لازم نہیں کیا۔
جیسے ہی لازم کرے گی تو ٹیکس کو چھوڑنا ہوگا اور زکوٰۃ کو اختیار کرنا ہوگا پھر حکومت کے خزانے میں مال کافی ہوگیا ہے تو پھر چاہے تو لے اور چاہے تو لوگ اپنے طور پر دے دیں۔ اس میں بھی ریاست رخصت دے رہی ہے۔ پھر اس صورت میں بھی قیامت کے دن مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اگرچہ اسلامی ریاست ہے۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 6, 2024 at 5:28 amاسلامی ریاست کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں کی ریاست ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ مسلمان اگر کسی جگہ حکومت کر رہے ہیں تو اور لوگوں کی اکثریت نے انھوں حکمران تسلیم کیا ہے تو اب نظم اجتماعی کے تقاضوں کو پورا کیا جائے گا۔ دین مسلمان حکمرانوں کا فریضہ قرار دیتا ہے کہ زکوۃ وصول کریں۔
زکوۃ اس کے علاوہ ایک انفرادی عبادت بھی ہے۔ اسے ادا کیا جائے گا چاہے ٹیکس کی صورت ہو یا زکوۃ کے عنوان سے ہو۔
یہ دو کشتیوں کی سواری کا مسئلہ نہیں، ایک فریضہ کی ادائیگی کی مختلف صورتیں ہیں۔ جیسے نماز کی ادائیگی کی مختلف صورتیں وقت اور حالات کی وجہ سے اختیار کی جاتی ہیں۔
-
Asad
Member March 6, 2024 at 6:42 amزکوٰۃ انفرادی عبادت ہے بلکل ہے اللہ تعالیٰ جو حکم دیتے ہیں اسکو اختیار کرنا ہی عبادت ہے لیکن وہ اپنے وقت کے لحاظ سے اخیار کی جائے گی جیسے
چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دو تو جب تک چوری نہیں ھوگی اس حکم کو کیسے پورا کیا جائے گا؟
اس حکم پر عمل کرنا بھی عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ جو حکم دے رہے ہیں وہ ایک پسمنظر میں ہے حکم کی نوعیت بتا رہی ہے کہ زکوٰۃ لینے والے موجود ہیں تو جو وہ مطالبہ کر رہے ہیں اس کو پورا کرو۔
نماز، روزہ، حج یہ احکام خود بتا رہے ہیں کہ یہ افرادی نوعیت کے ہیں
مسجد ہو یا نہ ہو نماز پڑھنی ہے۔
بلکل ایسے ہی نظم اجتماعی مطالبہ ہی نہیں کر رہی تو زکوٰۃ کیسے دی جائے گی ہر شخص اس عبادت کو کیسے پورا کرے گا؟
اب آپ یہ کھ دیں گے کہ اپنے آپ میں ادا کرے تو یہ حکم رسول اللہ نے تو نہیں دیا۔
صحابی کی آپ دلیل پیش کر رہے ہیں تو وہ ایک حکمران کی حیثیت سے کہہ رہے ہیں۔
ہمارے حکمران تو کوئی مطالبہ کر ہی نہیں رہے پھر علماء کیوں یہ ایک الجھن والی بات پیش کرتے ہیں اور کس بنیاد پر؟
مطلب ہر شخص کیلکولیشن کرنے بیٹھے گا اللہ تعالیٰ کبھی اسطرح کا حکم دیتے ہی نہیں ہیں۔
اجتہاد کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔
آپ کو کرنا یہ چاہیے تھا کہ حکمرانوں کو یہ بتا تے کہ زکوٰۃ اور ٹیکس میں سے کسی ایک کو اختیار کریں اور جب اختیار کر لیں تو اسی کا مطالبہ کریں عوام سے۔
حکمران کی اطاعت کرنے کا حکم ہے اور جب اس حکم کو عوام مانے گی تو یہ بھی اللہ کے حکم کو ماننا ہے اور اللہ کے حکم کو ماننا ہی عبادت ہے۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 7, 2024 at 4:41 amزکوٰۃ نماز کی طرح انفرادی عبادت بھی ہے۔ اللہ تعالی کے دونوں طرح سے اس کا حکم قرآن میں دیا ہے۔ فرد کو مخاطب کر کے بھی کہا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرو۔ بعینہ حکمرانوں کو بھی کہا کہ نماز کا نظام قائم کرو۔ اگر آپ کا مقدمہ تسلیم کر لیا جائے تو نماز کے بارے میں بھی یہ کہا جائے گا کہ جب حکمران نماز کا نظام قائم نہیں کر رہے تو نماز کیوں ادا کی جائے۔ دیکھیے قرآن کی آیت
الذین أن مکناھم اقاموا الصلواۃ و اتوا الزکاة
-
Asad
Member March 7, 2024 at 7:16 amآپ اس بات پر غور نہیں کر رہے کہ دونوں لفظ اپنے اپنے طور پر مطلب رکھتے ہیں جیسے صلوۃ تو کسی کو جاکے دینی تو نہیں ہے پڑھنی ہے یعنی قائم کرنی ہے پڑھنی ہے اور یہ حکم کسی پر دپیندنٹ نہیں ہے۔
جبکہ دوسرے لفظ میں “اور زکوٰۃ ادا کرو” اجمال ہے ایک عام حکم جو مخاطب جانتا ہے کہ زکوٰۃ اور نماز کیا چیز ہے تو اس کے مطابق عمل کرے گا۔
مخاطبین جانتے ہیں کہ کیا ہدایت دی جارہی ہے اور اس پر عمل کیسے کرنا ہے اور كس وقت کرنا ہے۔
قرآن مجید میں جگہ جگہ زکوٰۃ کو الگ الگ طرح سے استعمال کیا تو اُن تمام آیت کو ایک جگہ جمع کرکے پھر سمجھیں اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ کیا اصلی مدعا ہے۔
وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا
فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ
فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخۡوَانُکُمۡ فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۱﴾
وَ کَانَ یَاۡمُرُ اَہۡلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ ۪ وَ کَانَ عِنۡدَ رَبِّہٖ مَرۡضِیًّا ﴿۵۵﴾
وَّ جَعَلَنِیۡ مُبٰرَکًا اَیۡنَ مَا کُنۡتُ ۪ وَ اَوۡصٰنِیۡ بِالصَّلٰوۃِ وَ الزَّکٰوۃِ مَا دُمۡتُ حَیًّا ﴿۪ۖ۳۱﴾
وَ جَعَلۡنٰہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡہِمۡ فِعۡلَ الۡخَیۡرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءَ الزَّکٰوۃِ ۚ وَ کَانُوۡا لَنَا عٰبِدِیۡنَ ﴿۷۳﴾ۚ ۙ
اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾
وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۵۶﴾
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۶۰﴾
صحیح ہے زکوٰۃ صدقہ ہی ہے لیکن یہ صدقہ اپنے طور پر تب دیا جائے گا جب کسی نظم کو ذمےداری نہ دی گئی ہو۔ یعنی کوئی نظم موجود نہ ہو۔
لوگوں کی بھلائی کے لیے خرچ کرنا ہے تو اس کے لیے ٹیکس کا سسٹم اختیار کیا گیا ہے اگر ٹیکس کو ہی زکوٰۃ مان لیں تو پھر نصاب تو ٹیکس کے سسٹم کا زکوٰۃ سے الگ ہے لیکن حکم تو تب بھی پورا ہورہاہے اگر یہ نیت ہوکہ زکوٰۃ کی جگہ ٹیکس دے رہے ہیں۔ تو وہ دین کا فریضہ پورا ہوگیا؟ کیا خیال ہے اس میں؟
بجائے اسکے کہ کیلکولیشن کرنے بیٹھیں کہ زکوٰۃ کا جو نصاب ہے اسکے مطابق ہوگی تو نیت زکوٰۃ کی مانی جاے گی ورنہ نہیں۔
-
Dr. Irfan Shahzad
Scholar March 8, 2024 at 9:27 pmیہ بات پہلے بتائی جا چکی کہ کوئی شخص ٹیکس میں زکوۃ کی نیت نہیں رکھتا تو زکوۃ الگ ادا کرلے۔
ورنہ اس کا فریضہ ٹیکس کی صورت میں بھی ادا ہو جاتا ہے۔
-
Asad
Member March 10, 2024 at 12:09 pmٹھیک ہے۔
Sponsor Ask Ghamidi
The discussion "How Can We Consider Zakat And Tax Given To A Non-Muslim State As One?" is closed to new replies.