Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums General Discussions آیات محکمات اور متشابہات ؟؟

  • آیات محکمات اور متشابہات ؟؟

    Posted by Aejaz Ahmed on March 12, 2024 at 9:37 am

    آیات محکمات اور متشابہات سے کیا مراد ہے ؟؟ اور کون کون سی آیات محکمات ہیں اور کون کون سی متشابہات ہیں ؟؟

    برائے مہربانی تفصیلی جواب دیں

    Aejaz Ahmed replied 6 months, 2 weeks ago 2 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • آیات محکمات اور متشابہات ؟؟

    Aejaz Ahmed updated 6 months, 2 weeks ago 2 Members · 2 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar March 13, 2024 at 3:06 am

    غامدی صاحب اپنی کتاب میزان میں لکھتے ہیں:

    محکم اور متشابہ

    تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات ہی صحیح نہیں ہے کہ محکم اور متشابہ کو ہم پورے یقین کے ساتھ ایک دوسرے سے ممیزنہیں کر سکتے یا متشابہات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر ہیں ۔قرآن کی وہ سب آیتیں محکم ہیں جن پر اُس کی ہدایت کا مدار ہے اور متشابہات صرف وہ آیتیں ہیں جن میں آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں میں سے کسی نعمت یا نقمت کا بیان تمثیل اور تشبیہ کے انداز میں ہوا ہے یا اللہ تعالیٰ کے صفات و افعال اور ہمارے علم اور مشاہدے سے ماورا اُس کے کسی عالم کی کوئی بات تمثیلی اسلوب میں بیان کی گئی ہے ، مثلاً آدم میں اللہ تعالیٰ کا اپنی روح پھونکنا یا سیدنا مسیح علیہ السلام کا بن باپ کے پیدا کرنا یا جنت اور جہنم کے احوال و مقامات وغیرہ ۔ وہ سب چیزیں جن کے لیے ابھی الفاظ وجود میں نہ آئے ہوں، اُنھیں تمثیل اور تشبیہ کے اسلوب ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔ کسی نادیدہ عالم کے حقائق دنیا کی سب زبانوں کے ادب میں اِسی طرح بیان کیے جاتے ہیں۔آج سے دو صدی پہلے ہم میں سے کوئی شخص اگر مستقبل کا علم پا کر بجلی کے قمقموں کا ذکر کرتا تو غالباً اِسی طرح کرتا کہ دنیا میں ایسے چراغ جلیں گے جن میں نہ تیل ڈالا جائے گا اور نہ اُنھیں آگ دکھانے کی ضرورت ہو گی ۔متشابہ آیات کی نوعیت بالکل یہی ہے ۔ وہ نہ غیرمتعین ہیں اور نہ اُن کے مفہوم میں کوئی ابہام ہے ۔اُن کے الفاظ عربی مبین ہی کے الفاظ ہیں اور اُن کے معنی بھی ہم بغیر کسی تردد کے سمجھتے ہیں ۔ہاں ،یہ ضرور ہے کہ اُن کی حقیقت ہم اِس دنیا میں نہیں جان سکتے، لیکن اِس جاننے یا نہ جاننے کا قرآن کے فہم سے چونکہ کوئی تعلق نہیں ہے ،اِس لیے کسی صاحب ایمان کو اِس کے درپے بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

    ’’…یہ باتیں جس بنیادی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں ،وہ بجاے خود واضح اور مبرہن ہوتی ہے۔ عقل اُس کے اُتنے حصے کو سمجھ سکتی ہے ،جتنا سمجھنا اُس کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔البتہ چونکہ اُس کا تعلق ایک نادیدہ عالم سے ہوتا ہے ، اِس وجہ سے قرآن اُن کو تمثیل و تشبیہ کے انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ علم کے طالب بقدر استعداد اُن سے فائدہ اٹھا لیں اور اُن کی اصل صورت و حقیقت کو علم الٰہی کے حوالے کریں۔ یہ باتیں خدا کی صفات و افعال یا آخرت کی نعمتوں اور اُس کے آلام سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہیں۔ اِن کا جس حد تک ہمارے لیے سمجھنا ضروری ہے ،اُتنا ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے اور اُس سے ہمارے علم و یقین میں اضافہ ہوتا ہے ،لیکن اگر ہم اپنی حد سے آگے بڑھ کر اِن کی اصل حقیقت اور صورت کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کریں تو یہ چیز فتنہ بن جاتی ہے اور اِس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے ذہن سے شک کا ایک کانٹا نکالنا چاہتا ہے اور اِس کے نتیجے میں بے شمار کانٹے اُس کے اندر چبھا لیتا ہے ،یہاں تک کہ اِس نایافتہ کی طلب میں اپنی یافتہ دولت کو بھی ضائع کر بیٹھتا ہے اور نہایت واضح حقائق کی اِس لیے تکذیب کر دیتا ہے کہ اُن کی شکل و صورت ابھی اُس کے سامنے نمایاں نہیں ہوئی۔‘‘ ( تدبر قرآن ۲/ ۲۵۔۲۶)

    قرآن کی جس آیت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ متشابہات کا مفہوم سمجھنا ممکن نہیں ہے ،اُس میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ متشابہات کے معنی اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا ،بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔اِس کے لیے اصل میں ’ تَاْوِیْل‘کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بالکل اُسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس مفہوم میں یہ سورۂ یوسف میں آیا ہے: ’قَالَ: یٰٓاَبَتِ ھٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْ یَایَ مِنْ قَبْلُ، قَدْ جَعَلَھَا رَبِّیْ حَقًّا‘ ۲۲ [22] (یوسف نے کہا: ابا جان، یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اُس کو حقیقت بنا دیا )۔ یہ خواب جن لفظوں میں قرآن نے بیان کیا ہے ، اُن کے معنی ہر شخص پر واضح ہیں ۔ عربی زبان کا ایک عام طالب علم بھی قرآن کی اِس آیت کا مفہوم ، جس میں یہ خواب بیان ہوا ہے، ۲۳؂ [23] بغیر کسی دقت کے سمجھ لیتا ہے ۔ لیکن سورج اور چاند اور اُن گیارہ ستاروں کا مصداق کیا تھا جنھیں یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ کو سجدہ کرتے دیکھا؟ اُس سے پوری قطعیت کے ساتھ کوئی شخص اُس وقت تک واقف نہیں ہو سکتا تھا جب تک یہ مصداق اپنی اصل صورت میں لوگوں کے سامنے نہ آ جاتا۔ متشابہ، قرآن نے اِنھی چیزوں کو کہا ہے ۔ اِس کے معنی، جس طرح کہ لوگ بالعموم سمجھتے ہیں، مشتبہ اورمبہم کے نہیں ہیں کہ اِس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ حق و باطل میں امتیاز کے لیے میزان اور فرقان ہے ، کسی حیثیت سے مجروح ہو۔ آیت یہ ہے:

    ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ، فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِہٖ، وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ، وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ: اٰمَنَّا بِہٖ، کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا، وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ.(آل عمران ۳: ۷)

    یعنی وہی عزیز وحکیم اور حی وقیوم جس کی اِن صفات کا تقاضا تھا کہ وہ یہ کتاب اتارے اور اِس کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد اِس کے منکروں کو سزا دے۔

    https://www.javedahmedghamidi.org/#!/mizan/5aa6a4315e891e8f44a45788?chapterNo=0&subChapterNo=0&subChsecNo=3&lang=ur

  • Aejaz Ahmed

    Member March 13, 2024 at 3:25 am

    جزاک اللہ خیرا

You must be logged in to reply.
Login | Register