Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums General Discussions Use Of Brackets In Urdu Translation Of The Holy Quran

  • Use Of Brackets In Urdu Translation Of The Holy Quran

    Posted by Shaharyar Sabeeh on March 12, 2024 at 8:11 pm

    A.O.A!

    Most translators including Ghamidi Saheb use words in brackets while translating The Holy Quran from Arabic to Urdu.

    If certain words aren’t there in Arabic, the why is there a need to add them in translation?

    I know some might say it is to make the verse even clearer, but Allah swt would himself have done that in Arabic. Why do we need to take this initiative in translation?

    Shaharyar Sabeeh replied 6 months, 2 weeks ago 2 Members · 2 Replies
  • 2 Replies
  • Use Of Brackets In Urdu Translation Of The Holy Quran

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar March 13, 2024 at 1:46 am

    قران مجید کے کچھ خاص اسالیب ہیں۔ ان میں سے ایک ایجاز یعنی بیان میں اختصار برتنا ہے۔ اس کی وجوہات تھیں۔ایک یہ کہ یہ اسلوب عربوں کے ہاں رائج تھا۔ ایسا کلام جس میں سب کچھ کھول کر رکھ دیا جائے کہ قاری کو کوئی ادنی ذہنی مشقت نہ کرنی پڑے، ان کے نزدیک معمولی کلام تھا۔ ہمارے ہاں شاعری میں اسے برتا جاتا ہے۔ مثلاً

    موت کا ایک دن معین ہے

    نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

    دونوں مصرعوں کے درمیان معنوی ربط کی دریافت مبہم نہیں، مگر مذکور نہیں، اس کی دریافت قاری کو لطف دیتی ہے اور یہ متکلم کی ذکاوت اور قادر الکلامی پر دلیل ہوتی ہے۔

    دوسرے یہ کہ خدا یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ذی فہم قاری سے مخاطب ہے۔ جو باتیں خود بخود سمجھ آ جانی چاہییں ہو وہ قاری کی ذہانت اور اس کی ذہنی شمولیت پر چھوڑ دی جاتی ہیں۔ چناں چہ جب وہ اسے پا لیتا ہے تو گویا اسے اپنی دریافت سمجھتا ہے اور کلام سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

    تیسرے یہ کہ قرآن مجید کے اوّلین مخاطبین کے سامنے وہ سارے حالت اور سیاق و سباق موجود تھا جس میں قرآن نازل ہو رہا تھا اس لیے قبل از خطاب مفہوم باتوں یا معلومات کو مذکور کیے بغیر کلام شروع کیا جاتا ہے۔ یہ اسالیب اوروہ حالات چونکہ بعد کے لوگوں کے سامنے نہیں ہوتے، اس لیے ان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ترجمہ میں ان محذوفات کا اظہار کر دیا جائے تاکہ عام قاری پورے پس منظر اور ربط کے ساتھ کلام کو سمجھ سکے۔ گفتگو میں بھی یہ اسلوب ایک حد تک عام طو رپر اختیار کیا جاتا ہے۔ مشترکات کی بنا پر understood باتوں کو مذکور کیے بغیر ایجاز و اختصار کے اسلوب پر بات کی جاتی ہے۔ باہر کے کسی شخص کے لیے یہ باتیں مکمل طور پر قابل فہم نہیں ہوتیں جب تک کہ اسے گفتگو کے محذوفات سے آگاہ نہ کر دیا جائے۔

  • Shaharyar Sabeeh

    Member March 13, 2024 at 6:32 am

    Jazak Allah 👍🏻.

You must be logged in to reply.
Login | Register