تخصیص کا مطلب ہے کسی عام حکم یا اس کے اثر کو خاص کرنا مخصوص کرنا۔ جیسے یہ کہا جائے کہ نماز پڑھو تو اس میں یہ تخصیص پیدا کی جائے کہ اس کے مخاطب بچے نہیں ہیں۔ کیوں کہ بچے شریعت کے مکلف نہیں۔
علما اس پر بحث کرتے ہیں کہ رسول اللہ قرآن کے کسی حکم کی تخصیص کر سکتے ہیں یا نہیں۔ مقام شافعی کا کہنا ہے وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ ان پر لازم تھا کہ قرآن کی پیروی کریں۔ آپ نے جو تخصیص بھی کی ہے وہ دراصل قرآن کی تبیین ہے شرح ہے وضاحت ہے جو خود کلام کا تقاضا تھا ۔ لیکن امام صاحب اہنے اس اصول کو پوری طرح نبھا نہیں سکے۔ چناں چہ سنت سے انھوں نے قرآن پر وہ تخصیصات بھی قبول کر لیں جو کسی طرح بیان یا شرح نہیں بنتی۔ انھوں نے انھیں یہ کہہ کر قبول کیونکہ چاہے ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے یہ بہرحال شرح ہی ہے۔
غامدی صاحب بھی اسی کے قائل ہیں کہ سنت قرآن کی تخصیص نہیں کر سکتی سوائے وہ جو کلام کا تقاضا ہو۔
اس کے بعد جہاں جہاں امام شافعی نے سنت سے تخصیص قبول کی ہے وہاں غامدی صاحب نے وضاحت کی ہے یہ تخصیصات بنتی ہیں تو ہم بنیادوں پر اور اگر نہیں بنتیں تو سنت میں آئی ان تخصیصات کی درست پلیسمنٹ کیا ہے۔
یہ ایک تکنیکی بحث ہے۔ یہاں اس کو سمجھانا مشکل ہے۔ اس کے لیے آپ مولانا عمار خان ناصر کی کتاب قرآن و سنت کا باہنی تعلق اور حدیث کیا ہے کے موضوع پر غامدی صاحب کی سیریز دیکھیے۔ اس سیریز کی قسط 19 سے آگے تک اسی مسئلے کو واضح کیا گیا ہے۔