اسلام اس کی اجازت دیتا ہے جو چاہے اسے قبول کرے اور چو چاہے رد کر دے
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا
تاہم، جو لوگ بغیر کسی عذر کے محض سرکشی اور ضد کی وجہ سے دعوت حق کا انکار پیغمبر کے موجودگی میں کرتے ہیں ان کی سزا کا فیصلہ اسی دنیا میں کر دیا جاتا ہے۔
یعنی جو سزا دیگر لوگوں کو آخرت میں عدالت لگا کر ملنے ہے، وہ رسول کے اتمام حجت کے بعد رسول کے منکرین اور معاندین کو اسی دنیا میں دی جاتی ہے۔
حضرت نوح کی قوم پر عذاب آنے سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور محمد رسول اللہ تک جاری رہا۔ محمد رسول اللہ کے منکرین کو سزا تلوار کے ذریعے سے دی گءی۔
تو مسءلہ صرف نبوت کا مدعی ہونے کا نہیں، بلکہ محمد رسول اللہ کی موجودگی سچاءی واضح ہو جانے کے بعد انھوں نے جرم کیا جس کی سزا انھیں دی گءی۔
رسول کے بعد یہ اختیار کسی کو نہیں کہ وہ خود سزا کا فیصلہ کرے۔ یہ فیصلہ خدا کی طرف سے ٓآتا ہے ۔
تفصیل کے لیے دیکھیے سورہ توبہ۔