Forums › Forums › Islam And Family › Quran'S Instruction On Accusation Of Adultery
-
Quran'S Instruction On Accusation Of Adultery
Posted by Abdullah AbdulRahman on July 1, 2024 at 12:15 pmAssalamu Alaikum
In order to accuse someone of adultery, Quran has put a condition of four witnesses. In normal circumstances, it’s ok. But in condition where a husband catches his wife cheating, is he gonna go find three more people? Even if he wants to divorce her and court asks why, then telling the truth will lead to penalty.
Abdullah AbdulRahman replied 4 months, 2 weeks ago 2 Members · 2 Replies -
2 Replies
-
Quran'S Instruction On Accusation Of Adultery
-
Ahsan
Moderator July 2, 2024 at 12:35 amQuran has given other orders for such scenarios. You can get separated from her after taking oath about being truthful. Molana Ahsan Writes for Surah Nur Verses 4-10 following
لعان کا ضابطہ: اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کی ذات کے سوا اس کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو اس صورت میں معاملہ کا فیصلہ قَسم سے ہو گا۔ اس کو اصطلاح شریعت میں ’لعان‘ کہتے ہیں۔ اس کی شکل یہ ہو گی کہ مرد چار بار اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے گا کہ میں جو الزام لگا رہا ہوں اس میں سچا ہوں۔ اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
پانچویں بار یہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹ الزام لگا رہا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اگر عورت مرد کی اس قسم کی کوئی مدافعت نہ کرے تو اس پر زنا کی وہی حد جاری ہو جائے گی جو اوپر مذکور ہوئی ہے۔ اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
اور اگر وہ اس الزام کو تسلیم نہیں کرتی تو اس کے لیے سزا سے بریت اس صورت میں ہو گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ ’وَیَدْرَؤُا عَنْھَا الْعَذَابَ‘ میں ’عذاب‘ سے مراد ظاہر ہے کہ وہی حد ہے جو اوپر آیت ۲ میں مذکور ہوئی ہے۔ اس کے سوا کسی اور سزا کو اس سے مراد لینا عربیت کے خلاف ہو گا۔ اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
اور پانچویں بار یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے۔ اگر کسی میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے کی تکذیب اور باہمدگر ملاعنت کا یہ واقعہ پیش آ جائے تو فقہاء کی یہ رائے ہے کہ قاضی ان کے درمیان تفریق کرا دے گا۔ یہ رائے مبنی بر حکمت معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ معاملہ اس حد تک خراب ہو جانے کے بعد ان کے درمیان اس سازگاری کی توقع نہیں کی جا سکتی جو میاں بیوی کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔
ایک تنبیہ: یہ آیت، جیسا کہ پہلی آیت میں اشارہ ہو چکا ہے، بطور تنبیہ و تذکیر ہے اور اس میں جواب شرط عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق، محذوف ہے۔ آگے آیت ۱۴ میں اس محذوف کو کھول بھی دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کے فضل و رحمت اور اس کے توّاب و حکیم ہونے کی برکت ہے کہ وہ تم کو یہ روشن ہدایات اور واضح و پر حکمت احکام دے رہا ہے کہ تمہارے لیے توبہ و اصلاح کی راہ کھولے ورنہ تم جس روش پر چل پڑے تھے یہ تو خدا کے غضب کو دعوت دینے والی تھی۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ احکام اس زمانہ میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمانوں کے اندر، منافقین کی ریشہ دوانیوں سے، بعض نہایت سخت قسم کی، جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے، کمزوریاں ظاہر ہوئی تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوریوں پر سزا دینے کے بجائے اپنے فضل و رحمت سے ان کو ان احکام و ہدایات کے نزول کا سبب بنا لیا جو اسلامی معاشرہ کو شیاطین و منافقین کی ریشہ دوانیوں اور فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری تھے۔ -
Abdullah AbdulRahman
Member July 6, 2024 at 4:55 pmThankyou
Sponsor Ask Ghamidi