Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums General Discussions Surah Baqarah

  • Surah Baqarah

    Posted by Taimur Mughal on July 26, 2024 at 1:53 pm

    My question is regarding the verses of Surah Baqarah where it is discussed that God wastalking to angels trhat He will create a khalifa upon earth.

    Then God says further I know wich you do not know.

    So then He taught Adam the names.

    Then He said to Adam tell the angels the names.

    My q is ;

    When our beloved prophet (saw) was reciting these to his companions ; didn’t the companions asked him that o dear prophet can you explain to us what does these verses mean?

    Because I can found no where what exactly is being discussed here.

    I even got an answer that we can not know the true reality of these verses.

    But then my q is ;

    Why would God reveal this information in His kalaam if the people won’t be able to get what they mean?

    And second part of this same q is :

    That if the names are referring to personalities that will arrive in the future of humanity that God introduced to Adam ;

    This means Adam got to meet all the noble personalities including our dear prophet muhammed (saw)? So he met them all? And he knew about them and probably ahd taught to his children?

    Kindly elaborate .

    Thank you.

    Mehmood ul Hassan Aalami replied 1 month, 1 week ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • Surah Baqarah

  • Mehmood ul Hassan Aalami

    Member July 26, 2024 at 3:24 pm

    اسلام علیکم و رحمہ اللہ

    سب سے پہلے تو آپ کے اس سوال کی تحسین بنتی ہے کہ یہ سوال اپنی اصل میں واقعی ہی ایک علمی مسلمان کے لیے قابلِ فکر ہے اور مجھے سابقہ سال ہی اِس سوال سے نہایت شدت کے ساتھ واسطہ پڑا تھا۔خدا بھلا کرئے استاد محترم غامدی صاحب کا کہ اُن کی تفسیر قرآن اِس سلسلے میں ملاحظہ کی تو کافی حد تک تشفی ہوگئی لیکن چند پہلو پھر بھی وضاحت طلب تھے تو خدا کی کرنی سے استاد اعظم اصلاحی مرحوم کی تفسیر قرآن اِس سلسلے میں کھل کر سامنے آ ئی اور یوں اِس طالب علم کو اِس سوال کے سلسلے میں مکمل اطمینان حاصل ہوگا۔لہذا آپ کے اِس سوال کے سلسلے میں بھی بطورِ جواب مولانا اصلاحی مرحوم کی تفسیر قرآن کا مطلوبہ حصہ پیش خدمت کیا جارہا ہے۔باغور ملاحظہ فرمائیں۔

    وَعَلَّمَ اَدَمَ الۡاَسْمَاءَ كُلَّهَا: اللہ تعالیٰ نے آدم کو کن کے نام سکھائے؟ اس سوال کے جواب میں تین قول ہیں۔ ایک قول تو یہ ہے کہ اس سے مراد تمام چیزوں کے نام ہیں، دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد فرشتوں کے نام ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد آدم کی ذریت کے نام ہیں۔ ان میں سے جہاں تک دوسرے قول کا تعلق ہے اس کی تائید میں قرآن میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس پر کسی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔ باقی رہا پہلا اور تیسرا قول تو ان میں سے تیسرا قول ہمارے نزدیک زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔ اس کے وجوہ یہ ہیں: اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسماء پر الف لام عہد کا ہے۔ اگر اس کو عہد کا الف لام مانا جائے تو پھر اس سے کچھ خاص ناموں کا مراد لینا صحیح نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے ضمیریں اور اشارے وغیرہ جو استعمال ہوئے ہیں وہ تمام تر وہ ہیں جو عربی زبان میں عام چیزوں کے لئے نہیں بلکہ خاص طور پر عقل وادراک اور شعور وارادہ رکھنے والی چیزوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً فرمایا ہے ثُمَّ عَرَضَھُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ (پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا) اَنۡبِؤُنِیۡ بِاَسۡمَاءِ ھٰؤُلَاءِ (مجھے ان لوگوں کے نام بتاو) یٰٓاَدَمُ اَنۡبِئۡھُمۡ بِاَسۡمَائِھِمۡ (اے آدم ان کو ان کے ناموں سے آگاہ کرو) فَلَمَّا اَنۡبَاَھُمۡ بِاَسۡمَائِھِمۡ (تو جب ان کو ان کے ناموں سے آگاہ کیا)۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہاں موقع فرشتوں کو قائل کرنے کا ہے۔ فرشتے حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت کے متعلق یہ گمان رکھتے تھے کہ یہ خلافت پاکر زمین میں فساد مچائے گی اور خونریزیاں کرے گی۔ ان کے اس گمان کی تردید اگر ہو سکتی تھی تو اسی طرح ہو سکتی تھی کہ ان کو ذریت آدم علیہ السلام کا مشاہدہ کرایا جائے اور اولاد آدم میں جو انبیاء ورسل، جو مجددین مصلحین اور جو شہدا وصدیقین پیدا ہونے والے تھے ان سے ان کو آگاہ کیا جائے تاکہ ان پر یہ بات واضح ہو سکے کہ اگر اولاد آدم علیہ السلام کے اندر ایسے لوگوں کے پیدا ہونے کا امکان ہے جو اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیارات کو بے جا طور پر استعمال کریں گے تو ساتھ ہی ان کے اندر ایسے لوگ بھی اٹھیں گے جو خود بھی اس ذمہ داری کا حق ادا کریں گے اور دوسروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لئے سردھڑ کی بازیاں لگائیں گے۔ یہ تینوں باتیں بڑی اہمیت رکھنے والی ہیں اگر چہ ان میں سے الگ الگ ہر ایک کے متعلق کوئی نہ کوئی کمزور قسم کا اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے لیکن یہ تینوں مجموعی طور پر مل کر نہایت مضبوط دلیل اس بات کی بن جاتی ہیں کہ اسماء سے مراد حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت کے نام اور خاص کر ان لوگوں کے نام ہیں جو دنیا میں فساد کو مٹانے اور عدل کو قائم کرنے کے لئے آنے والے تھے۔ رہا یہ سوال کہ آدم علیہ السلام کی یہ ذریت تھی کہاں کہ ان کا مشاہدہ کرایا گیا اور ان کے نام بتائے گئے تو اس سوال کا جواب خود قرآن مجید سے معلوم ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نسل آدم علیہ السلام کو ایک مرتبہ نکال کر ان سے اپنے رب ہونے کا اقرار لیا ہے۔

    وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتَ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا (۱۷۲ اعراف) اور یاد کرو جب کہ تیرے رب نے تمام بنی آدم یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو نکالا اور ان کو خود ان کے اوپر گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں ہم گواہ ہیں۔

    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں بھیجنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عالم غیب میں ایک مرتبہ تمام نسل آدم علیہ السلام کے ایک اجتماع عام میں ان سے اپنی ربوبیت کا اقرار کرایا ہے۔ اسی اجتماع عام میں آدم علیہ السلام کو ان کی ذریت کے نام بھی بتائے گئے ہوں گے اور اسی موقع پر فرشتوں کے سامنے ان کو پیش کر کے وہ سوال وجواب بھی ہوا ہو گا جس کا یہاں حوالہ ہے۔ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ: یعنی اگر تم اس گمان میں سچے ہو کہ اولاد آدم علیہ السلام خلافت پاکر زمین میں فساد برپا کرے گی تو ان لوگوں کے نام بتاو کہ یہ کون لوگ ہیں، یہ زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں یا اس میں امن اور عدل قائم کرنے والے ہیں؟ اس میں فرشتوں کو قائل کرنے والا پہلو یہ ہے کہ نسل آدم علیہ السلام کے رویہ سے متعلق اگر کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے تو اسی شکل میں قائم کی جاسکتی ہے جب بہ حیثیت مجموعی ان کے بارے میں تمہیں واقفیت ہو۔ لیکن جب اس طرح کی کوئی واقفیت تمہیں نہیں ہے تو پھر اس طرح کی بدگمانی کے لئے بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔

You must be logged in to reply.
Login | Register