آپ کا سوال شرح سود طے کرنے کے معاملے میں بینک کے اختیار سے متعلق تھا۔ وہ انتظامی مسئلہ ہے۔
البتہ سود قرض پر منفعت کو کہتے ہیں۔ بینک اکاونٹ کے میں رکھے پیسوں پر منافع سود میں شمار ہوتا ہے۔
تاہم اس میں کچھ فرق ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
بچت کی مذکورہ اسکیمیں عام سودی معاملات کی طرح نہیں ہیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِن اسکیموں کے ذریعے سے حکومتیں قرض دینے والوں کی شرائط پر نہیں، بلکہ اپنی شرائط پر قرض لیتی ہیں۔ پھر یہی نہیں، اُس کے لیے منفعت کی شرح بھی خود طے کرتی اور اپنی صواب دید سے اُسے کم و بیش بھی کر دیتی ہیں۔ یہ اگرچہ بعینہٖ وہ چیز تو نہیں ہے کہ کسی سے قرض لے کر اُس کی طرف سے کسی مطالبے کے بغیر کچھ اضافے کے ساتھ واپس کر دیا جائے، مگر اُس کے قریب ضرور ہے۔ سود کی ممانعت جس زیادتی کو روکنے کے لیے ہوئی ہے، اُس کی شناعت کو معاملے کی یہ صورت بڑی حد تک کم کر دیتی ہے۔ اہل تقویٰ کے لیے تو موزوں یہی ہے کہ اِن سے بھی اجتناب کریں، لیکن عام لوگ، خاص طور پر یتامیٰ، بیوائیں اور ریٹائرڈ ملازمین جو اپنی پونجی کاروباری تجربات کی نذر کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، اگر اپنی ناگزیر ضرورتوں کے لیے اِن اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں تو امید کی جا سکتی ہے کہ اِس پر وہ کسی مواخذے سے دوچار نہیں ہوں گے۔