سن اکہترء کی جنگ میں مغربی پاکستان کے بعض علماٴ کے فتوے
——–
السلام علیکم!
غامدی صاحب کی ”فوج کا بیانیہ“ سیریز میں سقوطِ ڈھاکہ (یا ”قیامِ بنگلہ دیش“) پہ گفتگو ہوئی۔ کئی نکات ذیرِ بحث آئے۔ مگر ایک بات discuss نہیں ہوئی: مغربی پاکستان کے چند علماٴ نے جنگ سے پہلے اور اس کے دوران بعض فتوے جاری کیے۔ ان فتاواٴ کی رو سے بنگال کی خواتین کی آبرو، مغربی پاکستان کی افواج بلکہ ”رضاکار“ (بلوائیوں) تک کے لیے جائز قرار دے دی گئی۔اس ”قانون“ کے تحت سیکڑوں، شاید ہزاروں، خواتین اس ظلم کا شکار ہویٗں۔ اس بات کے شواہد کئی بین الاقوامی تنظیمیں جمع کر کہ چھاپ چکی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں بنگال کی خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی، mass rape as a war crime، ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس گھناونے امر میں جہاں وہ rapists قابل مذمت ہیں، وہیں وہ علماء بھی condemnation سے بری نہیں۔ یہ میری رائے ہے۔ تاہم اس معاملے میں میَں آپ کی بصیرت سے بھی مستفیض ہونا چاہتا ہوں۔
بصد شکر۔ والسلام۔
سلیم صدیقی
حوالے
——-
۱۔ ویکیپیڈیا کے مضمون https://en.wikipedia.org/wiki/Rape_during_the_Bangladesh_Liberation_War میں کئی کتب، جریدوں، اور papersکے حوالے درج ہیں۔
۲۔دو مخصوص حوالے: Bina D’Costa کی کتاب Nationbuilding, Gender and War Crimes in South Asiaاور Dina M. Siddiqi کا مضمون The contest over gender in Bangladesh