-
آدم علیہ السلام سے تاقیامت آنے والے انسان
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق فرمائی اور اس کو زمین میں بھیج دیا۔ انسان کی ہدایت ہے کے لیے اپنے راہبروں اور پیغمبروں کا سلسلہ رواں کیا جو انسانیت کی ہدایت کا سامان کرتے اور حق تعالیٰ کے پیغام کی تشہیر کرتے۔
میرے ذہن میں ایک سوال ہے اس چیز کو لے کر کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کرنی تھی، دو صورتیں ہیں کہ جس میں انسان گمراہ ہوتا ہے، ایک صورت تو شیطان کے بہکانے کی ہے اور دوسری انسان کا اپنا نفس۔
آج تک آنے والے تمام انسانوں کا اگر اس بات کے لیے اندازہ لگایا جائے کہ حق پر رہنے والے لوگ کتنے تھے گمراہ کتنے تھے۔۔۔؟ یعنی کہ ہدایت پر کتنے تھے اور کون تھے جو سرکشی میں تھے۔۔۔؟
اس اندازے سے دیکھا جائے تو بہت ہی کم تعداد میں ایسے لوگ تھے جو حق پر قائم رہتے تھے۔۔۔ اور ہزاروں سال کا وقفہ بھی ہوتا تھا ایک سے دوسرے نبی کے درمیان، کہ اس قوم میں دوسرے نبی ایک طویل مدت کے بعد آئے ہوں۔
تو جیسا کہ ہمیں قرآن و احادیث سے ملتا ہے کہ نوح و موسی علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم نے کس طرح سرکشیاں کی اور رب تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتے رہے، تو اگر ان انبیاء کے زمانہ ہی میں اگر چند لوگ ہوتے تھے ہدایت پر، اس ان کے جانے کے بعد یہ تعداد اور کم ہو جاتی رہی ہو گی اور کہ جب اگلے نبی آتے ہوں گے تو سب کے سب گمراہ ہی ہوں گے۔
جیسا کہ اسلام کے آغاز سے قبل ہر طرف جاہلیت ہی تھی۔
تو اب میرا سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں ندیکھا جائے تو اللہ رب العزت کے اس نظام کے تحت 80 فیصد انسانیت تو جہنم میں جائے گی۔۔۔ اور آج بھی ہم دیکھ لیں تو 7 ارب کی آبادی میں سے ڈیڑھ ارب مسلمان ہیں، اور اس میں سے بھی ہر فرقہ اور مذہب الگ سے ہے (میرا یہ مقصد یہاں ہر گز نہیں کہ آدھے مسلمان بھی حق پر نہیں ہیں اور وہ بھی جہنم میں جائیں گے) مگر ایسا ضرور ہے کہ اسلام ہمیں بہت سخت تنبیہ کرتا ہے جہنم کے حوالے سے، بہت سے اعمال ایسے ہیں، اور ان ہی اعمال میں کثرت میں مسلمان کرتے ہیں۔
تو ایسا کیوں ہے؟
زیادہ تر انسان تو جہنم میں جائیں گے۔۔۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ نظام ہے بس اسی کے تحت فیصلہ ہو گا تو پھر کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی ایسا نظام اللہ رب العزت نے کیوں نہیں بنایا کہ جس میں کم انسان جہنم میں جاتے۔۔۔ کیونکہ بالآخر یہاں جو بھی ہو رہا ہے وہ کسی نظام کے تحت ہے۔
اللہ رب العزت تو ہر مستقبل کا علم جاننے والے ہیں۔
Sponsor Ask Ghamidi