-
Ambiguity In Ghamidi Sahab's Definition Of Polytheism (Shirk)
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو الٰہ بنانا شرک ہے۔ غامدی صاحب اس کا معنٰى یہ بیان کرتے ہیں کہ “کسی کو خدا کی ذات سے یا خدا کو اُس کی ذات سے سمجھا جائے یا خلق میں یا مخلوقات کی تدبیر امور میں کسی کا کوئی حصہ مانا جائے اور اِس طرح کسی نہ کسی درجے میں اُسے اللہ تعالیٰ کا ہم سر بنا دیا جائے۔” (میزان : 206)
شرک کی جو تعریف غامدی صاحب نے یہاں بیان کی ہے وہ جامع تعریف نہیں لگتی؛ اللہ کی صفات میں سے صرف دو صفات خلق اور مخلوقات کی تدبیر امور میں شرک کا ذکر اس میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح شرک فی العبادة کا بھی احاطہ اس میں نہیں کیا گیا ہے یعنی اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا بھی شرک ہے اس کا ذکر تعریف میں نہیں کیا گیا ہے جبکہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ اسے ہی بیان کیا گیا ہے۔
میں نے یہ اعتراض ڈاکٹر شہزاد سلیم صاحب کے تلامذہ کے ایک گروپ میں اٹھایا لیکن وہاں سے مجھے تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ بعض بھائیوں کا یہ کہنا تھا کہ کوئی کسی کی عبادت کرتا ہی اس لیے ہے کہ وہ مخلوقات کی تدبیر امور میں اس کا کوئی نہ کوئی حصہ مانتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ غامدی صاحب کی تعریف میں شامل ہے۔ جبکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ عبادت ایسا مانے بغیر بھی کی جاتی ہے۔ قرآن کریم میں مشرکین مکہ کا عقیدہ بیان ہوا ہے کہ وہ خلق اور خلق کی تدبیر امور میں خدا کے ساتھ شرک نہیں کرتے تھے۔
قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ وَ مَنۡ یُّخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ یُخۡرِجُ الۡمَیِّتَ مِنَ الۡحَیِّ وَ مَنۡ یُّدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلۡ اَفَلَا تَتَّقُوۡنَ ﴿۳۱﴾ (سورہ یونس 31)
اس آیت کے تحت غامدی صاحب لکھتے ہیں:
” اس سے واضح ہے کہ خدا کی جو صفات یہاں بیان ہوئی ہیں، اہل عرب اُن میں سے کسی کو بھی اپنے معبودوں سے متعلق نہیں سمجھتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ وہ جن دیویوں دیوتاؤں کو پوجتے تھے، اُن کے متعلق اُن کا عقیدہ یہ نہیں تھا کہ یہ آسمان و زمین کے خالق ہیں یا ابر و ہوا اور سورج اور چاند کے موجد ہیں یا زندگی اور موت پر متصرف ہیں یا نظام کائنات کا سررشتہ اِن کے ہاتھ میں ہے، بلکہ صرف یہ مانتے تھے کہ یہ خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ خدا اِن کی سنتا ہے، جو کام خدا سے کرانا چاہیں، کرا سکتے ہیں ، اِن کو اگر راضی رکھا جائے تو یہ خدا سے سفارش کر کے دنیا کی نعمتیں بھی دلواتے ہیں اور اگر بالفرض مرنے کے بعد اٹھنا ہی ہوا اور حساب کتاب کی نوبت آئی تو اُس وقت بھی یہ دست گیری کریں گے اور اپنی بندگی کرنے والوں کو نہ صرف بخشوا لیں گے، بلکہ اونچے اونچے درجے دلوائیں گے۔‘‘
(تدبرقرآن۴/ ۴۷)
ہاں یہ ضرور ہے کہ مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور یہ چیز غامدی صاحب کی تعریف میں داخل ہے لیکن ان کا سارا شرک یہی نہیں تھا اس کے سوا بھی ان کے شرکیہ عقائد و اعمال کا ذکر قرآن میں ہوا ہے۔
Sponsor Ask Ghamidi