Ahadith are not the independent source of Ahkam nor can be a source for deriving principles. They are the elaboration of an already established principle or its application.
The Quran does not accept any restriction on its allowance of Wasiah. It is general, and cannot be specified. It includes a will for one’s heirs too. Therefore, Ghamidi saheb placed the above-mentioned hadith and its like, in the category of making changes in the legal share of an heir. However, the man is allowed to make a will in favour of his heirs if he feels they need more or less of their appointed share.
Ghamidi saheb writes:
اللہ کی طرف سے اِس قانون کے نازل ہو جانے کے بعد اب کسی مرنے والے کو رشتہ داری کی بنیاد پر اللہ کے ٹھیرائے ہوئے وارثوں کے حق میں وصیت کا اختیار باقی نہیں رہا ۔ یہ تقسیم اللہ کے علم و حکمت پر مبنی ہے ۔ اُس کے ہر حکم میں گہری حکمت ہے اور اُس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ انسان اپنی بلندپروازیوں کے باوجود اُس کے علم کی وسعتوں کو پا سکتا ہے اور نہ اُس کی حکمتوں کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے ۔ وہ اگر بندۂ مومن ہے تو اُس کے لیے زیبا یہی ہے کہ اُس کا حکم سنے اور اُس کے سامنے سر جھکا دے ۔
تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وارثوں کی کوئی ضرورت یا اُن میں سے کسی کی کوئی خدمت یا اِس طرح کی کوئی دوسری چیز تقاضا کرے تو اِس صورت میں بھی اُن کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ آیت میں جس منفعت کے کم یا زیادہ ہونے کا علم اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دیا گیا ہے، وہ رشتہ داری کی منفعت ہے۔ اِس کا اُن ضرورتوں اور منفعتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ہمارے لیے معلوم اور متعین ہوتی ہیں۔ اِس لیے یہ وصیت کی جا سکتی ہے، مگر اللہ کی وصیت کے مقابلے میں کوئی مسلمان اب رشتہ داری کی بنیاد پر اپنی کوئی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔’مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ‘ کے جو الفاظ اِن آیتوں میں بار بار آئیں گے، اُن سے مراد بھی ایسی ہی کوئی وصیت ہے جو وارثوں کے سوا کسی دوسرے کے حق میں ہو یا وارثوں کی کسی ضرورت کے لیے یا اُن کی کسی خدمت کے صلے میں خود اُن کے حق میں کی جائے۔ )(میزان تقسیم وراثت)