غامدی صاحب میزان میں لکھتے ہیں
مبادلۂ اشیا کی صورت میں ادھار کے معاملات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی ہر آلایش سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے :
الذھب بالذھب وزنًا بوزن مثلاً بمثل، والفضۃ بالفضۃ وزنًا بوزن مثلاً بمثل، فمن زاد واستزاد فھو ربًا.(مسلم، رقم ۴۰۶۸)’’تم سونا ادھار دو تو اُس کے بدلے میں وہی سونا لو ، اُسی وزن اور اُسی قسم میں، اور چاندی ادھار دوتو اُس کے بدلے میں وہی چاندی لو ، اُسی وزن اور اُسی قسم میں، اِس لیے کہ جس نے زیادہ دیا اور زیادہ چاہا تو یہی سود ہے۔‘‘الورق بالذھب ربًا إلا ھاء وھاء، والبر بالبر ربًا إلا ھاء وھاء، والشعیر بالشعیر ربًا إلا ھاء وھاء والتمر بالتمر ربًا إلا ھاء وھاء. (مسلم، رقم ۴۰۵۹)
سونے کے بدلے میں چاندی ادھار دوگے تو اُس میں سود آ جائے گا۔ گندم کے بدلے میں دوسری قسم کی گندم ، جو کے بدلے میں دوسری قسم کے جو اور کھجور کے بدلے میں دوسری قسم کی کھجور میں بھی یہی صورت ہو گی۔ ہاں، البتہ یہ معاملہ نقدا نقد ہو تو کوئی حرج نہیں۔‘‘
اِن روایتوں کا صحیح مفہوم وہی ہے جو ہم نے اوپر اپنے ترجمہ میں واضح کر دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ، وہ یہی تھا ۔ روایتیں اگر اِسی صورت میں رہتیں تو لوگ اِن کا یہ مدعا سمجھنے میں غلطی نہ کرتے ، لیکن بعض دوسرے طریقوں میں راویوں کے سوء فہم نے اِن میں سے دوسری روایت سے ’ھاء وھاء‘ کا مفہوم پہلی روایت میں ،اور پہلی روایت سے ’الذھب بالذھب‘ کے الفاظ دوسری روایت میں ’الورق بالذھب‘ کی جگہ داخل کر کے اِنھیں اِس طرح خلط ملط کر دیا ہے کہ اِن کا حکم اب لوگوں کے لیے ایک لاینحل معما ہے ۔ ہماری فقہ میں’ربٰو الفضل‘ کا مسئلہ اِسی غتربود کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے ،ورنہ حقیقت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اِس ارشاد میں واضح کر دی ہے کہ ’إنما الربٰوا في النسیئۃ‘ (سود صرف ادھار ہی کے معاملات میں ہوتاہے ) ۔