بد قسمتی سے ہمارے لوگوں میں طلاق دینے کے طریقے کے بارے میں سخت لا علمی پائی جاتی ہے۔ بیوی کو چھوڑنے کا ارادہ ہو تو ایک ہی طلاق کافی ہو سکتی ہے۔ اس دوران میں رجوع نہ کیا جایے تو نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ اور اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح ہو سکتا ہے۔
بہرحال، مزکورہ کیس میں باقی دو بار کی طلاق عدت کے دوران ہی میں دی گئی ہیں اس لیے ہمارے نزدیک یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ طلاق اصلا تین بار ہوتی ہے۔ ایک رشتہ نکاح میں تین بار یہ اختیار مرد استعمال کر سکتا ہے۔ تین بار طلاق کا مطلب طلاق کے الفاظ تین بار بول دینا نہیں ہے۔ بلکہ طلاق کے بعد رجوع اور پھر پھر طلاق اور پھر رجوع اور پھر طلاق دی جایے تو تین بار طلاق ہوتی ہے۔ آپ کے بھائی کے معاملے میں یہ ایک ہی طلاق ہے۔ عدت کے دوران میں اگر رجوع کر لیا جایے تو نکاح برقرار رہے گا۔ اور عدت گزر گئی ہوں تو نیا نکاح کیا جا سکتا ہے۔
تاہم فقہ حنفی اس بارے میں مختلف ہے۔ اس کے مطابق یہ تین بار کی طلاق تین شمار ہوں گی اور بیوی سے رجوع ہو سکتا ہے نہ ہی نکاح کیا جا سکتا ہے سوائے اس صورت کے کہ عورت کسی اور سے نکاح کرے اور وہاں سے اسے طلاق ہو جایے یا اس کا دوسرا خاوند فوت ہو جایے تو پہلا خاوند اس سے نکاح کر سکتا ہے۔
میاں بیوی دونوں اگر ہماری راے قبول کریں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔