Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam اھل بیت کون؟

Tagged: 

  • اھل بیت کون؟

    Posted by Ahmed Ehsan on May 29, 2025 at 12:30 pm

    برائے مہربانی غامدی صاحب کی ویڈیو کی طرف ریفر نا کیجیے گا، کیونکہ وہی ویڈیوز دیکھ کر ہی سوال پیدا ہوتے ہیں۔

    غامدی صاحب کے مطابق ، قرآن مجید اھل بیت سے مراد صرف ازواج رسول کو لیتا ہے، سورہ احزاب آیت 33 میں پہلے بھی مؤنث کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اور اس آیت کے بعد بھی مؤنث ہی کے صیغے خطاب کیا جارہا ہے، لیکن آیت 33 کے آخری حصے میں “عنکم” اور “یطھرکم” مذکر کے صیغے لائے گئے ہیں، جبکہ یہاں بھی مؤنث کے صیغے استعمال ہو سکتے تھے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ عربی میں اگر لوگوں میں مرد و زن دونوں ہوں تو مذکر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے, اور یہاں بھی بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہاں اھل بیت میں قرآن نے نبی کریم علیہ السلام کی ازواج کے ساتھ دیگر حضرات حسنین کریمین اور سیدنا علی کو بھی شامل کیا ہے، غامدی صاحب کی اس بارے کیا رائے ہے؟ اس آیت کو غامدی صاحب کس طرح حل کرتے ہیں؟

    Muhammad Ikrama replied 1 day, 16 hours ago 2 Members · 1 Reply
  • 1 Reply
  • اھل بیت کون؟

  • Muhammad Ikrama

    Member May 29, 2025 at 6:22 pm

    یہ عربی کا عام اسلوب ہے! امام حمید الدین فراہی کی مفردات القرآن کے حاشیے میں اس کی بہت سی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں، سورہ ہود میں بھی حضرت سارہ ع کے بارے میں مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ استاذ نے بھی اس کی وضاحت کر رکھی ہے۔

    الضمير في ﴿أَتعجبينَ﴾ و﴿عليكم﴾ لامرأة إبراهيم. وضمير الجمع المذكر يستعمل للنساء كثيرًا، وخاصة إذا عبر عنها»بأهل”، كما ترى في سورة الأحزاب … ومن ينظر في أشعار العرب يجد كثيرًا من الأمثلة. قال امرؤ القيس:
    فَلَو أنَّ أهلَ الدَّارِ فِيهَا كَعَهْدِنَا … وَجَدتُ مَقِيلًا عِندَهُم وَمُعَرَّسَا
    [ديوانه: ١٠٥، وفي الأصل: فلو كان، والتصحيح من الديوان].
    وقال عُمَر بن أبي ربيعة القرشي، وقد جمع بين الخطابين كما في الآية:
    ١ – فَوَالله ما لِلْعَيْشِ ما لَم أُلاَقِكُمْ … وَما لِلْهَوَى إذْ ما تُزَارِينَ مِنْ طَعمِ

    فاعلم أن الضمير كثيرًا ما يجمع للمرأة ويذكر، ليكون كناية عنها. وكثرت الأمثلة، فدونك بعضها: قال:

    فإن شِئْتِ حَرَّمْتُ النسَاءَ سِواكُمُ … [وَإنْ شِئْتِ لَمْ أَطْعَم نُقاخًا ولا بَرْدَا]

    [البيت للعرجي في اللسان (نقخ) والنُقاخ: الماء البارد العذب الصافي].

    ثم أورد بيتي عمر بن أبي ربيعة، وقال:

    »وفي هذه الأبيات ترى للمرأة ضمير الجمع والوحدة معًا. وهذا القدر مقنع ولو شئنا لكثّرنا الأمثلة”.

    وأحبّ أن أورد هنا جملة من الشواهد وهي غيض من فيض. فأسوق أولًا أبياتًا خاطب فيها الشاعر امرأة واحدة بصيغة الجمع.

    أولًا:

    – قال الأعشى من قصيدة في الديوان (ط ٧) ١٧٩:

    أجُبيرُ هل لأِسيرِكُمْ مِن فادِي … أم هل لطالبِ شِقّةٍ مِن زادِ

You must be logged in to reply.
Login | Register