Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islamic Sharia Nafil Namaz (Salat-ul-Tasbeeh)

  • Nafil Namaz (Salat-ul-Tasbeeh)

    Fatimah updated 2 years, 10 months ago 4 Members · 9 Replies
  • Umer

    Moderator October 2, 2020 at 8:27 am
  • Mohammad Hasan

    Member October 2, 2020 at 8:35 am

    To matlb wo riwayat sahih nhi h zaeef h

    • Umer

      Moderator October 2, 2020 at 8:38 am

      zayada tar kai nazdeek zaeef hai laikin kuch issay sahih bh maantay hain.

  • Mohammad Hasan

    Member October 2, 2020 at 8:41 am

    To hm kiski salah maane

  • Fatimah

    Member June 13, 2021 at 8:44 am

    Any good reason why ghamidi sahab doesn’t feel that this salat is not sahih?

    This guy has quoted alot of ahadees on this namaz so what reason ghamidi sahab gives of these being zaeef?

    https://youtu.be/9OK-y4uWWuM

  • Umer

    Moderator June 13, 2021 at 3:15 pm

    • Fatimah

      Member June 14, 2021 at 2:46 am

      Hmm still confused. They can be zaeef ravayat in terms of unrealistic faiday about this salah but I don’t get any valid point on considering the all the ahadees related to salat e tasbeeh are zaeef.

      Or may be can summarize what ghamidi sahb has said in simple words?

  • Faisal Haroon

    Moderator June 14, 2021 at 9:38 am

    Please see this research of Dr. Amir Gazdar on this topic:

    صلاۃ التسبیح کی احادیث

    (علمِ روایت کی روشنی میں تحقیق وتخریج) (6)

    تخریجِ حديثِ فضل بن عباس

    صلاۃ التسبیح کے باب میں ایک روایت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو حدیث وآثار کے مندرجہ ذیل صرف دو مصادر میں نقل ہوئی ہے:

    1. یہ حدیث پہلی مرتبہ پانچویں صدی ہجری میں ابو بکر خطیب البغدادی (المتوفى: 463ھ) نے ذكر صلاة التسبیح، رقم 6 اور 7 میں نقل کی ہے۔

    2. خطیب بغدادی کے کم وبیش چار سو سال بعد نویں صدی ہجری میں حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفى: 852ھ) نے ابو نعیم کی “کتاب القُربان” کے حوالے کے ساتھ حدیثِ فضل بن عباس کا ایک طریق اپنی کتاب امالی الاذكار فی فضل صلاة التسبیح، ص 29 پر درج کیا ہے۔

    اِن دو کتابوں کے سوا حدیث وآثار کے باقی تمام مصادر اِس باب میں حدیثِ فضل بن عباس کے ذکرسے بالکل خالی ہیں۔

    تعارفِ متن

    اِس روایت کےمتن میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو صلاۃ التسبیح کی اِس منفرد نماز کی ترغیب دی تھی۔ اِس میں آپ کی نسبت سے اِس نماز کا طریقہ اور اِس کی فضیلت الفاظ کے معمولی تفاوت کے ساتھ وہی بیان ہوئی ہے جو اِس سے پہلے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے منسوب زیادہ تر روایتوں میں بیان ہوچکی ہے۔

    تحقیقِ اسانید

    (أ) ذكر صلاة التسبیح، خطیب بغدادی رقم 6 کی سند میں مندرجہ ذیل علل پائے جاتے ہیں:

    ۱۔ اِس میں ایک راوی ’عبد الرحمن بن عبد الحميد الطائی‘ ہے جس کے بارے میں ائمۂ رجال ومحققینِ حدیث بالکل واقف نہیں ہیں کہ یہ کون شخص تھا۔ تراجمِ رجال کے مراجع اِس راوی کے تعارف سے بالکل خاموش ہیں، یعنی یہ ایک بالکل مجہول راوی ہے۔

    ۲۔ اِس سند میں یہی راوی عبد الرحمن بن عبد الحميد الطائی اِس روایت کو اپنے والد سے نقل کر رہا ہے، دراں حالیکہ علمِ رجال کے علما کے ہاں اِن کے والد کا حال بھی بالکل اِنھی کی طرح کا ہے، یعنی وہ بھی ایک نامعلوم شخصیت ہے۔ اُس کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون ہے۔ حافظ ابن حجر اِن دونوں راویوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ: ’وَالطَّائِيُّ الْمَذْكُورُ لَا أَعْرِفَهُ وَلَا أَبَاهُ‘، ’’میں اِس طائی سے واقف ہوں، نہ اِس کے والد ہی کو جانتا ہوں‘‘۔ (امالی الاذكار فی فضل صلاة التسبیح، ابن حجر، ص 29)

    ۳۔ پھر عبد الرحمن کے والد اِس سند میں ابو رافع نامی راوی سے یہ روایت نقل کررہے ہیں۔ یہ ابو رافع کون ہے، علمِ رجال کے مراجع ہمیں اِس حوالے سے بھی کوئی رہنمائی نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں حافظ ابن حجر نے وضاحت کی ہے کہ یہ ابو رافع صحابیٔ رسول ابو رافع قبطی رضی اللہ عنہ نہیں ہے، بلکہ میرے خیال میں یہ راوی اسماعیل بن رافع ہے جو ضعیف راویوں میں سے ہے۔ ابن حجر کے الفاظ یہ ہیں: “وَأَظُنُّ أَنَّ أَبَا رَافِعٍ شَيْخُ الطَّائِي لَيْسَ أَبَا رَافِعٍ الصَّحَابِيَّ، بَلْ هُوَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ رَافِعٍ أَحَدُ الضُّعَّفَاءِ”۔ (امالی الاذكار فی فضل صلاة التسبیح، ابن حجر، ص 29)

    یہاں یہ واضح رہے کہ حافظ ابن حجر کا بتایا ہوا یہی راوی ابو رافع اسماعيل بن رافع الانصاری ہے جو تبع تابعین میں سے تھا، زیرِ نظر مقالے میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اِسی سے منقول ہے۔ کئی علماے رجال نے اِس کو ضعیف، جب کہ متعدد ائمۂ حدیث نے ’منکر الحدیث‘ یا ’متروک الحدیث‘ راوی قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، مزی، ج3، ص85-90، رقم442؛ تہذیب التہذیب، ابن حجر، ج1، ص294-296، رقم547)

    اِس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اِس سند میں اِس راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر کی تعیین اگر درست مان لی جائے تو اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سند متعدد مجہول راویوں کی موجودگی کے علاوہ منقطع، یعنی ٹوٹی ہوئی بھی ہے۔ اِس لیے کہ تبع تابعین میں سے اسماعیل بن رافع نامی ایک ’منکر ومتروک الحدیث‘ راوی، جس کی پیدائش 150ھ کی ہے، براہ راست فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کوئی روایت کیسے بیان کرسکتا ہے، دراں حالیکہ اُن کی وفات ہجرتِ نبوی کے ۱۸ویں سال ہوچکی تھی۔ چنانچہ بالبداہت واضح ہے کہ یہ سند ’منقطع‘، بلکہ ’مُعࣿضَل‘ ہے، یعنی ابو رافع اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے مابین یہ سند دو یا دو سے زیادہ راویوں کی صراحت کی متقاضی ہے جو اِس میں مذکور نہیں ہیں۔ اسماعیل بن رافع کابراہ راست فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا کسی طرح قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔

    (نوٹ: علم حدیث کی اصطلاح میں ’مُعضَل‘ اُس روایت کو کہا جاتا ہے جس کی سند سے دو یا دو سے زیادہ راوی بے درپے گِرے ہوئے ہوں۔ یہ سند کے ٹوٹنے کی وجہ سے ضعیف ہوجانے والی روایتوں میں سب سے معیوب اور کمزور روایت ہوتی ہے۔ ملاحظہ ہو: تيسير مصطلح الحديث، ابو حفص محمود بن احمد طحان النعیمی، ص92-93)

    (ب) ذكر صلاة التسبیح، خطیب بغدادی رقم 7 کی سند میں مندرجہ ذیل دو علل پائے جاتے ہیں:

    ۱۔ ایک راوی اِس میں فضل بن عبد اللہ الھروی ہے جو مجہول ونامعلوم ہے۔ نہ صرف یہ کہ ائمۂ محدثین سے اِس کی کوئی توثیق ثابت نہیں ہے، بلکہ علمِ رجال کے مراجع اِس کے تعارف ہی سے بالکل خالی ہیں۔

    ۲۔ اِس سند میں عبد الملك بن ہارون بن عنترة نامی ایک راوی ہے جس کو امام بخاری نے ’منکَر الحدیث‘، امام یحیی بن سعید قطان نے ’کذاب‘، امام سعدی نے ’دجال کذاب‘ کہا ہے۔ امام ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ جھوٹی حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ امام دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں جھوٹ بولتا تھا، اِس لیے ’متروک‘ ہے۔ (ملاحظہ ہو: الكامل فی ضعفاء الرجال، ابن عدی، ج8، ص366، رقم 1452؛ التاريخ الكبير، بخاری، ج5، ص436، رقم 1423؛ ميزان الاعتدال فی نقد الرجال، الذھبی، ج2، ص666 -667، رقم 5259؛ موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی فی رجال الحديث وعللہ، مجموعۃ من المؤلفين، ج2، ص426، رقم 2242)

    (ج) جہاں تک حافظ ابن حجر کے ذکر کردہ آخری طریق کا تعلق ہے جو اُنھوں نے امالی الاذكار فی فضل صلاة التسبیح، ص ۲۹ پر ابو نعیم کی کتاب القُربان کے حوالے کے ساتھ نقل کیا ہے، اُس کے بارے میں واضح رہے کہ خود ابن حجر نے، جیسا کہ اوپر بیان بھی ہوچکا ہے، صراحت کی ہے کہ اِس سند میں طائی اور اُس کا کا والد مجہول ہیں اور ابو رافع بھی ایک ناقابلِ اعتبار راوی ہے۔ اُنھی کی اِس توضیح سے اِس روایت کا ’مُعࣿضَل‘ ہونا بھی ثابت ہوا ہے جس کی تفصیل پہلے بیان ہوچکی ہے۔ چنانچہ اِس طریق کا حکم بھی وہی ہے جو پہلے طریق کا ہے۔

    روایت کی حیثیت اور اِس کا حکم

    مندرجہ بالا تحقیق ومطالعہ سے واضح ہوا کہ صلاۃ التسبیح کے باب میں فضلِ بن عباس رضی اللہ عنہ کی نسبت سے مروی قولی حدیث کا استناد بھی نبی ﷺ سے قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔ پہلا اور تیسرا طریق مجہول راویوں کی موجودگی اور انقطاع سند کی بنا پر بالکل واہی، نہایت ضعیف اور ناقابل التفات ہے، جب کہ دوسرا طریق ایک ’کذاب‘ و’وضاع‘ راوی کی بنا پر ’موضوع‘ یعنی من گھڑت ہے۔ چنانچہ صلاۃ التسبیح کے اثبات کے لیے علمِ روایت کی رو سے حدیثِ فضل بن عباس کو پیش کرنا بھی بالکل جائز نہیں ہے۔

    اِس تحقیق کے نتیجے میں صلاۃ التسبیح کے باب میں اسماعیل بن رافع انصاری جیسے ناقابلِ اعتبار راوی کی روایت میں موجود یہ ایک اضطراب بھی واضح ہوا کہ یہی شخص کوئی واسطہ بیان کیے بغیر اپنی پیدائش سے سوا سو سال قبل وفات پانے والے صحابہ کا نام لے کر نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کرتا ہے تو بعض روایتوں میں یہ واقعہ آپ کے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتا ہے اور کبھی یہ اِسی کو آپ کے دوسرے چچا زاد بھائی فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کرتا ہے۔ یہ اضطراب واختلاف بھی اِس روایت کے ناقابلِ اعتبار ہونے ہی پر دلالت کرتا ہے۔

    تحقیق وتالیف: محمد عامر گزدر

    • Fatimah

      Member June 14, 2021 at 10:36 am

      JazakAllah!!

The discussion "Nafil Namaz (Salat-ul-Tasbeeh)" is closed to new replies.

Start of Discussion
0 of 0 replies June 2018
Now