Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islam and State Can A Muslim State Declare Anyone Muslims Or Non-mulsim?

  • Can A Muslim State Declare Anyone Muslims Or Non-mulsim?

    Siddiq Qidwai updated 3 years, 8 months ago 3 Members · 9 Replies
  • $ohail T@hir

    Moderator July 6, 2020 at 3:31 pm

    There should be a summarized version also. I read half of it but then my eyes were hurting. BTW nice display pic @Arsal

  • Siddiq Qidwai

    Member July 21, 2020 at 8:50 am

    Arsalan, assalaamu alaikum. I’ve tried to find an Al-Mawrid response to Yusufi’s opinion. What I’ve found is that a certain Malak Faisal Aslam, another student of Ghamidi Saahayb, responded to him through Facebook. I don’t have access to FB, so I can’t verify if it still exists. Other than that, I’d be surprised if Ghamidi Saahayb did anything else, unless he felt the need to change his opinion, which is obviously not the case.

  • Siddiq Qidwai

    Member July 21, 2020 at 10:56 am

    Arsalan, I’ve been provided the articles by Malak Aslam just now, but as a copy and paste in whatsapp. So, I’ll give them next and they may appear tardy. In a way, there is a disconnect. Aslam is responding to Yusufi based on an earlier article authored by him; however, the article you linked above is written as a final piece by Yusufi after Aslam’s two articles given below. So, it’s not exactly tit for tat. Wassalaam.

  • Siddiq Qidwai

    Member July 21, 2020 at 10:58 am

    جماعت احمدیہ اور تاویل کی غلطی!

    (ملک فیصل اسلم)

    غیر مسلم اسے کہتے ہیں جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا پیرو ہو. اگر کوئی شخص کسی دین کو بھی نہ مانتا ہو تو اس کو بھی ہم غیر مسلم ہی کہتے ہیں. ایسا کہنے میں اصلا اس کی کوئی حقارت مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کو بیان واقعہ کے طور پر غیر مسلم کہا جاتا ہے. غیر مسلم یعنی محض یہ کہ وہ مسلمان نہیں ہے یا تو کسی اور مذہب کا ماننے والا ہے یا مذھب بیزار ہے. غیر مسلموں کوعام طور پر کافر بھی کہہ دیا جاتا ہے. ہمارے استاذ جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کے لئے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جاۓ کہ اس پر اتمام حجت ہوا ہے کہ نہیں. اتمام حجت کا مطلب ہوتا ہے سمجھانے کی آخری کوشش، آخری دلیل، یعنی حق بات کو آخری درجے میں واضح کر دیا جاۓ. لوگ جانتے بوجھتے حق بات کو ماننے سے انکار کر دیں یا حق بات پر غور کرنے سے اپنے دل و دماغ کو ایسا بند کر لیں کہ حق کی معرفت حاصل کرنا اب ممکن نہ رہے. ایسے لوگوں کو کافر کہنے کے بارے میں کیا رائے ہے؟

    استاذ غامدی اپنی کتاب مقامات میں لکھتے ہیں “یہ صرف خدا ہی جانتا اور وہی بتا سکتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ پر فی الواقع اتمام حجت ہو گیا ہے اور اسے کافر کہہ سکتے ہیں. لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ حق اب کسی فرد یا گروہ کو بھی حاصل نہیں رہا کہ وہ کسی شخص کو کافر قرار دے یہی معاملہ اُن لوگوں کا ہے جو اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کر لیں یا سرے سے لامذہب ہو جائیں۔ اُن کے بارے میں بھی اِس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ غیرمسلم ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کسی پیدایشی مسلمان پر اسلام کی حقانیت کس قدر واضح تھی، اِس کے بارے میں پورے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ چیز خدا ہی کے جاننے کی ہے اور وہی دلوں کے احوال سے واقف ہے۔ ہم جس چیز کو نہیں جانتے، اُس پر حکم لگانے کی جسارت بھی ہم کو نہیں کرنی چاہیے۔ “

    اب اس کے بعد جو معاملہ اس وقت زیر بحث ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہے اور اس بات کا اقرار باللسان کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں. لیکن کوئی ایسا گمراہ کن عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتا ہے جو تعلیمات اسلامیہ کے خلاف ہے. اور مسلمانوں کے ایمانیات کے بھی صریح منافی ہے.لیکن جب اس شخص کو اس ضلالت اور گمراہی پر توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ اس بات پر اصرار کرتا رہے کہ میں مسلمان ہی ہوں بلکہ اپنے باطل عقیدے کے حق میں قرآن و حدیث سے ایسے دلائل پیش کرے جسے مسلمانوں کے علماء بالکل غلط قرار دیتے ہوں. تو ایسے شخص کو کیا غیر مسلم کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟

    اس کا جواب یہ ہے کہ اس شخص کو غیر مسلم یا کافر اس لئے قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ایک تو وہ اپنے استدلال کو قرآن و حدیث ہی سے پیش کر رہا ہے دوسرے وہ خود اس بات کو پورے اصرار کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے.

    ہمارے یہاں مسلمانوں میں بہت سے افراد یا گروہ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے عقائد اور نظریات میں ایسی چیزیں شامل کر لی ہیں جن کو مسلمانوں کے دوسرے افراد یا گروہ ضلالت، یا گمراہی سمجھتے ہیں. یہ گمراہ نظریات توحید، نبوت، امامت، قیامت سب کے بارے میں ہیں. ان پر ایمان رکھنے والے افراد میں مسلمان امت کے بڑے بڑے نام شامل ہیں. لیکن سب کے سب اپنے آپ کو نہ صرف اصرار کے ساتھ مسلمان کہتے ہیں بلکہ اپنے عقائد کے حق میں استدلال قرآن اور حدیث ہی سے پیش کرتے ہیں. اور ان عقائد کو نہ ماننے والوں کو گمراہ کہتے ہیں. جماعت احمدیہ بھی ان گروہوں میں سے ایک گروہ ہے. انہوں نے ایک نبوت کے غلط اور گمراہ کن دعوے کو مان کر وہی غلطی دوہرائی جو کچھ دوسرے لوگوں نےمثال کے طور پر توحید، امامت اور قیامت کے گمراہ کن عقائد کو مان کر کی تھی. ہمارے لئے ان سب کے بارے میں کیا حکم ہے؟

    علماء کرام کا حق ہے کہ اس شخص یا گروہ کے عقائد میں موجود باطل عناصر کی نشاندھی کریں. مسلمانوں کو ایسے شرکیہ یا کفریہ عقائد سے متعلق ایجوکیٹ کریں. خود اس شخص یا گروہ کو بھی بتائیں کہ وہ جن نظریات پر عمل پیرا ہیں اس میں فلاں چیز شرک ہے، فلاں کفر ہے، فلاں گمراہی ہے. اس کو کامل جذبہ خیر اندیشی کے تحت دعوت دیں. وہ اس لئے کہ مجھ تک جب ایک حق بات پہنچ جاۓ تو میں چاہوں گا کہ میرا بھائی بھی کسی گمراہی کے سبب نقصان نہ اٹھاۓ اور ایسا نہ ہو کہ اسے خالق کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے. میں اس حق بات کی دعوت اس تک بھی پہنچا دوں یہی میرا کام ہے. اس کے باطل عقائد اور کفریہ نظریات کے بارے میں الله کا کیا فیصلہ ہے اس کے لئے اللہ سے ملاقات کا انتظار کرنا ہو گا.

    ہمارے کچھ بہت محترم دوستوں کا اصرار ہے کہ مثال کے طور پر ہمارے جن بزرگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ توحید کا منتہاے کمال وحدت الوجود ہے، یا ہمارے جن اکابر شیوخ کا یہ نظریہ ہے کہ ختم نبوت کے معنی یہ ہر گز نہیں کہ نبوت کا مقام اور اس کے کمالات ختم ہو گئے بلکہ اس کے معنی تو محض اتنے ہیں کہ اب جو بھی نبی آئے گا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کا پیرو ہو گا. یا ہمارے جن گروہوں کا عقیدہ ہے کہ قرانی ایمانیات میں ایک اضافی ایمان امامت کا بھی ہے. یا ہماری جن عظیم دانشوں کا یہ فلسفہ ہے کہ قیامت میں جنت دوزخ کچھ نہیں ہے محض احوال ہیں، ہمارے ان سب عظیم بزرگوں کو تو کچھ نہ کہا جاۓ البتہ ایک گروہ جماعت احمدیہ کو غیر مسلم ضرور کہا جاۓ. (اوپر مثالوں میں میں نے احتراما اپنے جلیل القدر بزرگوں کا نام نہیں لیا)

    ہمارے ایک معزز دوست کا استدلال یہ ہے کہ “احمدی حضرات مرزا صاحب پر بحیثیت نبی اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ انھیں قرآن سے اس کا کوئی ثبوت مل گیا ہے یا قرآن کی کوئی آیت پڑھتے ہوئے کوئی غلط فہمی لاحق ہوئی ہے بلکہ ان کا مقدمہ بالکل سادہ ہے۔ وہ یہ کہ مرزا صاحب پر وحی نازل ہوئی، انھیں منصب نبوت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب کیا گیا اور اس لیے وہ نبی ہیں۔

    اس بات پر ایمان لانے کے لیے انھیں قرآن کی کسی آیت کی ضرورت نہیں، نہ وہ یہ کام کرتے ہیں۔ وہ اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو مرزا صاحب پر نازل ہوئی ہے۔ قرآن کو وہ صرف اس وقت زیر بحث لاتے ہیں جب کوئی مسلمان ان سے الجھتا اور قرآن کو ان کے سامنے پیش کرکے ان کی تردید کرتا ہے۔ اس کے جواب میں وہ قرآن کی آیات کی توجیہ و تاویل کرتے ہیں۔ یا یہ کہ جب وہ کسی مسلمان کو اپنی دعوت دینا چاہتے ہیں تو پھر ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں۔ کسی احمدی کو مرزا صاحب پر ایمان لانے کے لیے قرآن کی کوئی ضرورت نہیں۔”

    غور کیجئے تو یہ معاملہ ایسا سادہ نہیں جیسا بیان ہوا. یہ بات کہ مرزا صاحب پر وحی نازل ہوئی، انھیں منصب نبوت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب کیا گیا اور اس لیے وہ نبی ہیں۔ اور بس …. قرآن کا کوئی دخل نہیں، ایسا ہر گز نہیں. بلکہ اسی بات کوتھوڑا سا بڑھا لیں . یہ کہ مرزا صاحب پر وحی نازل ہوئی، انھیں منصب نبوت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب کیا گیا لیکن قرآن میں تو بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں. پھر کوئی مرزا صاحب کیسے نبی ہو سکتے ہیں؟ اب اس کے بعد قرآن ہی کی اس آیت کی ایک دوسری توجیہ پیش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں یہ گمراہ کن ایمان وجود میں آتا ہے. یہ بات کیسی کھوکھلی ہے کہ قران سے باہر باہر ہی نبی پر ایمان لے آیا جاتا ہے.

    ہمارے فاضل دوست مزید لکھتے ہیں کہ

    “اس بات کو ایک سادہ مثال سے سمجھیں۔ ایک احمدی جب کسی ہندو کو مرزا صاحب کی نبوت کی دعوت دے گا تو کیا وہ انھیں قرآن پیش کرے گا؟ وہ یہ کبھی نہیں کرے گا، نہ کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ قرآن تو حضور کے بعد کسی نبی کے ذکر سے قطعاً خالی ہے۔ وہ قرآن پیش کرے گا تو قرآن اس کا مقدمہ اور خراب کر دے گا۔ چنانچہ وہ مرزا صاحب کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے ان کا کلام، ان کے دلائل اور ان کے معجزات جو ان کے ہاں موجود ہیں، پیش کرے گا۔ اس مثال سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کی بنیاد پر غلطی لگنے کی بات کتنی کمزور ہے۔”

    یہاں دیکھئے ہمارے بھائی نے کیا غلطی کی. ایک احمدی کسی ہندو کو مرزا صاحب کی نبوت کی دعوت دینے کے لئے قرآن ہی پیش کرے گا اور آپ عملی طور پر مشاہدہ کر لیں وہ کرتا بھی یہی ہے. ہم کینیڈا میں روز یہ مشاہدہ کر رہے ہیں.وہ قرآن ہی پیش کرتے ہیں اسی سے دلیل دیتے ہیں. جیسے ہم بھی کسی ہندو کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دینے کے لئے قرآن ہی پیش کریں گے. قرآن تو حضور کے بعد کسی نبی کے ذکر سے قطعاً خالی ہے، جی ہاں لیکن ہمارے نزدیک ان کے نزدیک نہیں. قرآن اس کا مقدمہ اور خراب کر دے گا، ہم یہ سمجھتے ہیں اور ہماری اس قسم کی نا سمجھیوں سے ان کا مقدمہ مضبوط تر ہو رہا ہے.

    ہماری توجہات کا مرکزاور ہمارے اہداف بس یہی رہ گئے ہیں کہ فلاں کو کافر قرار دے دو فلاں کو غیر مسلم. جبکہ یہ حق صرف اور صرف الله ہی دے سکتا تھا. قرآن اور حدیث کا ایک ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ الله نے یہ حق کسی کو نہیں دیا. اگر ہمارے دانش وروں اور علماء کرام کے اہداف میں اب بھی کچھ تبدیلی آ جاۓ تو ان کی آنے والی نسلوں کو ہم راہ راست پر لانے کی سعی کر سکتے ہیں.کون نہیں جانتا کہ ان کا فکر اصلا تارعنکبوت سے بڑھ کر کچھ نہیں.

  • Siddiq Qidwai

    Member July 21, 2020 at 11:06 am

    احمدی جماعت اور مسلمان –

    (ملک فیصل اسلم)

    سورہ توبہ کی آیت ١١ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

    “وہ اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں”۔

    استاذ محترم جاوید غامدی صاحب اپنی کتاب البیان میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں. ” پیچھے اِنھی شرائط کے بعد فرمایا ہے کہ ’فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ‘۔ یہاں اُس کی جگہ ’فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ‘ کے الفاظ ہیں۔ یہ دونوں تعبیرات مل کر حکم کا منشا ہر لحاظ سے واضح کر دیتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اِن شرائط کے پورا ہو جانے کے بعد اُن سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا، قانون اور ریاست کے نقطۂ نظر سے وہ مسلمان سمجھے جائیں گے اور وہ تمام حقوق اُنھیں حاصل ہوجائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے مسلمانوں کے نظم اجتماعی میں اُن کو حاصل ہونے چاہییں۔ اُن میں اور پہلے ایمان لانے والوں کے حقوق و فرائض میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور اخوت کا یہ رشتہ قائم ہو جانے کے بعد وہ تمام ذمہ داریاں بھی اُن میں سے ہر ایک پر عائد ہو جائیں گی جو عقل و فطرت کی رو سے ایک بھائی پر اُس کے بھائی کے بارے میں عائد ہونی چاہییں۔”

    برادر محترم ابو یحییٰ اپنے ایک مقالے ‘ احمدی جماعت اور مسلمان’ میں لکھتے ہیں کہ “یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا احمدی جماعت کے افراد کو اس بنیاد پر کوئی رعایت دی جاسکتی ہے کہ وہ تاویل کی غلطی کا شکار ہوئے ہیں جس طرح مسلمانوں کے بعض دیگر فرقے تاویل کی غلطی کا شکار ہوکر سنگین گمراہیوں میں مبتلا ہوئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قادیانی حضرات کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ ختم نبوت کی آیت کے فہم میں مسلمانوں سے مختلف جگہ پر کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک شخص کے دعویٰ نبوت کو مان رہے ہیں۔ دعویٰ نبوت فہم دین کی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب خدا سے کلام کرنا، اس سے وحی پانا اور اس کا سفیر بن کرلوگوں میں کھڑے ہونا ہے۔ اس میں کسی تاویل اور توجیہ کی غلطی کا کیا سوال ہے؟ اس لیے یہ مسئلہ کسی تاویل یا توجیہ کی غلطی کا نہیں ہے کہ قادیانی حضرات کو اس بنیاد پر کوئی رعایت دے کر انھیں مسلمان تسلیم کرنا ضروری ہو۔”

    بالکل صحیح فرمایا کہ ‘ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک شخص کے دعویٰ نبوت کو مان رہے ہیں’. لیکن کیوں ؟ کیوں ایسا کر رہے ہیں؟ اس لئے کہ وہ ‘ ختم نبوت کی آیت کے فہم میں مسلمانوں سے مختلف جگہ ہی پر کھڑے ہوئے ہیں’. وہ اس آیت کی تفہیم ہی میں ایک غلط نکتہ نظر پر قائم ہو گئے ہیں. ان کو اس آیت کے صحیح پیغام کو سمجھنے میں غلطی لگ گئی. لہٰذا یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ ” قادیانی حضرات کا معاملہ یہ نہیں ہے کہ وہ ختم نبوت کی آیت کے فہم میں مسلمانوں سے مختلف جگہ پر کھڑے ہوئے ہیں.” معاملہ اصلا یہی ہے.

    آگے لکھتے ہیں کہ “قرآن مجید ایمانیات کو تفصیل سے واضح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان چیزوں کو مان لینے پر نجات منحصر ہے۔ اس ایمانیات میں کسی آنے والے نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے، اس لیے مرزا صاحب پر ایمان لانا قرآنی ایمانیات کے منافی ہے۔”

    اس ایمانیات میں کسی آنے والے نبی مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے بالکل ایسا ہی ہے. لیکن ایمان نہ لانے کا ذکر بھی نہیں. جو واحد آیت چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لیا جاۓ یہی وہ آیت ہے جسکے فہم کی غلطی میں وہ لوگ مبتلا ہو گئے ہیں. اور اس کو تاویل کی غلطی ہی کہا جا سکتا ہے. قرآن مجید جن ایمانیات کو تفصیل سے واضح کرتا ہے، ان کے بارے میں ان لوگوں کی راے یہ ہے کہ ان میں سے ایک ایک پر وہ پورا پورا ایمان رکھتے ہیں. الله پر اس کے رسولوں پر اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر یوم آخرت پر، حتی کہ اس کے رسول محمّد صلی اللہ علیہ وآله وسلم پر بھی. بس غلطی یہ لگ گئی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآله وسلم کو آخری نبی نہیں مانتے اور اس کے لئے الله کی کتاب میں دی گئی واضح ہدایت اور صریح آیت کی غلط تاویل کے نتیجے میں ایک غلط دعویٰ نبوت پر بھی ایمان لے آے. قرآن مجید جن ایمانیات کو تفصیل سے واضح کرتا ہے یہ اس پر ایک اضافی ایمان ہے. جو ہمارے نزدیک غلط ہے.

    اپنے مقالے میں ابو یحییٰ مزید لکھتے ہیں کہ “احمدی جماعت اور مرزا صاحب کا معاملہ اس پہلو سے مزید سنگین ہے کہ ان کا دعویٰ نبوت صرف دعویٰ نہیں رہا بلکہ ایک دعوت میں بدل گیا۔ اس دعوت کو لے کر وہ لوگوں تک گئے۔ لوگ ان پر اسی طرح ایمان لائے جس طرح انبیا پر ایمان لایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک گروہ احمدی جماعت کی شکل میں وجود میں آیا۔ اس احمدی جماعت کے نزدیک جو لوگ مرزا صاحب پر ایمان نہیں لاتے وہ ایک نبی کے انکار کی بنا پر کافر ہیں۔”

    یہ سب کے سب ختم نبوت کی آیت کی تاویل کی غلطی کے لگ جانے کے نتائج ہیں. جب آپ ایک غلط تعبیر نکال لیں گے. ایک غلط تاویل کا شکار ہو جایئں گے. تو باقی سب نتیجے کے طور پر سامنے آنے والی چیزیں ہیں.

    مزید لکھتے ہیں “چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ احمدی جماعت کا معاملہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں جیسا نہیں ہے جو ایک دوسرے پر کفر وشرک کے الزام لگاتے ہیں۔ وہ سب کے سب نصوص کے فہم پر کھڑے ہیں یا بہت ہوا تو اپنے گمراہ کن خیالات کا علانیہ اظہار کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کوئی نبوت کا دعویٰ کرکے لوگوں میں اپنی نبوت کی تعلیم پیش کرتا ہے، نہ اس بنیاد پر ان کے کفر و ایمان کے فیصلے کرتا ہے۔”

    اس پیراگراف میں دیکھئے برادر محترم ابو یحییٰ مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے درمیان پائے جانے والے اشتراک کے بارے میں فرمایا کہ ” وہ سب کے سب نصوص کے فہم پر کھڑے ہیں یا بہت ہوا تو اپنے گمراہ کن خیالات کا علانیہ اظہار کر دیتے ہیں”. غور کر کے دیکھ لیں قادیانی بھی یہی کر رہے ہیں. نصوص کے (غلط) فہم پر بھی کھڑے ہیں اور اپنے گمراہ کن خیالات کا علانیہ اظہار بھی کر رہے ہیں. نصوص کے غلط فہم پر کھڑے ہو کر گمراہ کن خیالات کا علانیہ اظہار کرنے کے نتیجے میں آپ کس دعوے کی بنیاد ڈال پاتے ہیں یہ تو آپ کی استطاعت کی بات ہے. آپ نبوت کا دعویٰ کریں یا ولایت کا، حکمرانئ سیاست کا یا اقتضائے بیعت کا. اس کو میں آپ کی جسارت اور آپ کی دیدہ دلیری تو کہہ سکتا ہوں لیکن کیا کافر یا غیر مسلم کہنا شروع کردوں وہ میری جسارت اور میری دیدہ دلیری ہو گی. میرا کام آپ کو محض خیر اندیشی کے جذبے کے تحت آپ کی غلطی پر متوجہ کرانا ہے. یہی دعوت ہے. اسی کا میں مکلف ہوں.

  • Arsalan

    Member July 21, 2020 at 11:23 am

    میں ریحان بھائے کے جواب کا منتظر رہو گا کسی بات پر پہنچنے سے پہلے۔ بہت شکریہ میں اسی جواب کا منتظر تھا

  • Siddiq Qidwai

    Member July 21, 2020 at 2:27 pm

    You’ve already got Yusufi’s last word on this topic. It’s the linked essay, with which you started this discussion. No more will be forthcoming from him.

  • Arsalan

    Member July 21, 2020 at 2:42 pm

    کیا وہ متفق ہےاب المورد کے ساتھ؟

  • Siddiq Qidwai

    Member July 21, 2020 at 2:59 pm

    As far as I know that’s not the case. It’s not infrequent for the AM folks do differ with Ghamidi Saahayb, so this instance is not surprising.

You must be logged in to reply.
Login | Register