Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Islam and State اقامت دین

  • اقامت دین

    Posted by Muhammad Usama Habib on December 7, 2020 at 11:17 am

    دین کو قائم کرنے یا قائم رکھنے سے مراد یہی ہے کہ جو امور ہماری ذاتی معاشرتی یا حکومتی حیثیت کے حوالے سے قرآن و سنت میں بیان ہوئے ہیں ان کو قائم کیا جائے اور اس کے بعد انہیں قائم رکھا جائے قرآن و سنت کے معاشرے اور حکومت سے متعلق جو احکام رائج نہیں ان کی طرف دعوت دی جائے اور جو لوگ قبول کرلے اور وہ اتنی طاقت رکھتے ہوں کہ ان احکام کو نافذ کرسکیں تو نافذ کرنے کی کوشش کریں سورۃ الشوریٰ آیت نمبر 13 کی یہ تاویل درست ہے درست نہیں تو دلیل کے کے ساتھ ہم پر غلطی واضح کر دی جائے اور جو سنت الہیہ کا تصور ہے کہ اللہ تعالی اپنے رسولوں کو غالب کرنے کا ذمہدار ہے مجادلہ :13 اس لئے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کو غالب کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد کی ہے وہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ نہیں ہے بلکہ اس سنت الہیہ ہی کا نتیجہ ہے تو یہ دلیل اس لیے کمزور ہے کیونکہ سورۃ آل عمران کی آیت 183 میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ” ۔۔۔ تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ۔۔۔ پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا” تو یہ کیسا غلبہ ہے کہ وہ قتل ہی ہو گئے اس لیے ہمیں اس آیت کی یہ تاویل کرنی پڑے گی کہ اللہ تعالی ان کو نظریاتی غلبہ عطا فرمائے گا نہیں تو دوسری صورت میں تو یہ قرآن سے بھی ٹکراتی ہے لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اسلام کو غالب کرنے کی کوشش بھی دوسرے امور کی طرح قابل اتباع ہی ہے۔ شکریہ

    Usama khan replied 3 years, 4 months ago 4 Members · 18 Replies
  • 18 Replies
  • اقامت دین

    Usama khan updated 3 years, 4 months ago 4 Members · 18 Replies
  • Faisal Haroon

    Moderator December 7, 2020 at 11:35 am

    What is the question?

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 7, 2020 at 11:47 am

    کیا سورہ شوری آیت 13 کی یہ تاویل درست ہے اور سنت الٰہیہ کے تصور پر اعتراض کا جواب ۔ جزاکاللہ

  • Faisal Haroon

    Moderator December 7, 2020 at 12:31 pm

    Please see:

    Quran 42:13

    Translation by Ghamidi

    اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا [90] کہ (اپنی زندگی میں) اِس دین کو قائم رکھو [91] اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ [92] کرو۔ تم جس چیز کی طرف اِن مشرکوں کو بلا رہے ہو (کہ یہ خدا کو ایک مانیں)، وہ اِن پر بہت شاق گزر رہی ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی طرف آنے کے لیے چن لیتا [93] ہے، لیکن اپنی طرف آنے کی راہ وہ اُنھی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

    Notes:

    90

    یہ اب اُسی مضمون کی تفصیل فرمائی ہے جو سورہ کی ابتدا میں بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا دین لے کر نہیں آئے ہیں جو اہل عرب کے لیے انوکھا اور اجنبی ہو، بلکہ اُسی دین کی دعوت دے رہے ہیں جس کی دعوت اُن سے پہلے کے پیغمبر دیتے رہے ہیں۔ اُس کے عقائد وہی ہیں، اُس کی اساسات وہی ہیں، اُس کی اخلاقی تعلیمات وہی ہیں اور چند ترامیم اور اضافوں کے سوا اُس کی شریعت بھی بالکل وہی ہے۔ اِس کے لیے انبیا علیہم السلام کا حوالہ جس طریقے سے دیا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ’’۔۔۔پہلے ابتدائی اور آخری کڑی، یعنی حضرت نوح اور حضرت خاتم الانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا، پھر بیچ کے انبیا میں سے تین جلیل القدر نبیوں ـــ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ـــ کا نام، خاص طور پر لیا۔ اِس اہتمام خاص کے ساتھ اِن کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ اِنھی تینوں نبیوں کی پیروی کے مدعی اُس وقت قرآن کے سامنے تھے۔ مشرکین عرب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کے مدعی تھے اور یہود و نصاریٰ بالترتیب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے۔ اِس طرح گویا نبیوں کی پوری تاریخ کی طرف بھی اجمالی اشارہ ہو گیا اور قابل ذکر امتیں بھی سامنے آگئیں۔‘‘

    (تدبرقرآن۷/ ۱۵۲)

    91

    یعنی اِس کو برقرار رکھو اور اِس پر قائم رہو۔ اِس کا کوئی حکم اگر فرد سے متعلق ہے تو فرد اُس پر قائم رہے اور معاشرے سے متعلق ہے تو معاشرے کے ارباب حل و عقد اُس پر قائم رہیں اور اُس کو پوری طرح برقرار رکھیں۔ اقامت دین کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ جن اہل علم نے اِسے دین کو دنیا میں جاری اور نافذ کرنے یا رکھنے کے معنی میں لیا ہے، اُن کی راے عربیت کے بالکل خلاف ہے۔ ہم نے ’’تاویل کی غلطی‘‘ کے زیرعنوان اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں اِس راے کی غلطی واضح کر دی ہے۔ یہ بالکل اُسی طرح کی تعبیر ہے، جیسے اقامت صلوٰۃ ہے۔ جس طرح اُس کے معنی نماز کو دنیا میں جاری اور نافذ کرنے کے نہیں ہیں، اِسی طرح اقامت دین کے بھی نہیں ہیں۔ قرآن نے ’عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَآئِمُوْنَ‘ اور ’یُحَافِظُوْنَ *‘ کی تعبیرات سے بالکل واضح کر دیا ہے کہ وہ جب لوگوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیتا ہے تو اُس سے اُس کی مراد کیا ہوتی ہے۔یعنی یہی کہ اُس کا اہتمام رکھو، اُس کی حفاظت کرو اور اُس پر قائم رہو۔ یہی بات یہاں دین کے بارے میں فرمائی ہے۔ چنانچہ اقامت دین، جیسا کہ بعض اہل علم نے سمجھا ہے، دین کے فرائض میں سے ایک فرض اور اُس کے احکام میں سے ایک حکم نہیں ہے کہ اُسے ’’فریضۂ اقامت دین‘‘ قرار دے کر فرائض دینی میں ایک فرض کا اضافہ کیا جائے، بلکہ پورے دین کے متعلق ایک اصولی ہدایت ہے، بالکل اُسی طرح جیسے ’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘ ** (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو) ایک اصولی ہدایت ہے۔

    92

    یعنی پورے کا پورا اختیار کرو، جس طرح کہ وہ ہے اور جس نظم و ترتیب کے ساتھ دیا گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اُس میں اپنی طرف سے کمی بیشی کردو یا اُس کی ترجیحات خود طے کرو یا اپنی تاویلات سے اُس کو کچھ کا کچھ بنا دو۔ اِن میں سے جو کام بھی کرو گے، اُس کا لازمی نتیجہ تفرقہ ہو گا۔

    * المعارج ۷۰:۲۳،۳۴۔

    ** اٰل عمرٰن ۳:۱۰۳۔

    93

    اصل میں ’یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’اِلٰی‘ اِس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں تضمین ہے۔

  • Faisal Haroon

    Moderator December 7, 2020 at 12:33 pm

    For sunnan of God, please see:

    Discussion 22218

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 7, 2020 at 1:02 pm

    اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ۔ اس فقرے کا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب نے قائم کنید دین را کیا ہے ، اور شاہ رفیع الدین صاحب اور شاہ عبدالقادر صاحب نے قائم رکھو دین کو ۔ یہ دونوں ترجمے درست ہیں ۔ اقامت کے معنی قائم کرنے کے بھی ہیں اور قائم رکھنے کے بھی ، اور انبیاء علیہم السلام ان دونوں ہی کاموں پر مامور تھے ۔ ان کا پہلا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ دین قائم نہیں ہے وہاں اسے قائم کریں ۔ اور دوسرا فرض یہ تھا کہ جہاں یہ قائم ہو جائے یا پہلے سے قائم ہو وہاں اسے قائم رکھیں ۔ ظاہر بات ہے کہ قائم رکھنے کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب ایک چیز قائم ہو چکی ہو ۔ ورنہ پہلے اسے قائم کرنا ہوگا ، پھر یہ کوشش مسلسل جاری رکھنی پڑے گی کہ وہ قائم رہے ۔

    اب ہمارے سامنے سوال آتا ہے کہ دین کو قائم کرنے سے مراد کیا ہے؟ ۔

    قائم کرنے کا لفظ جب کسی مادی یا جسمانی چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد بیٹھے کو اٹھانا ہوتا ہے ، مثلاً کسی انسان یا جانور کو اٹھانا ۔ یا پڑی ہوئی چیز کو کھڑا کرنا ہوتا ہے ، جیسے بانس یا ستون کو قائم کرنا ۔ یا کسی چیز کے بکھرے ہوئے اجزاء کو جمع کر کے بلند کرنا ہوتا ہے ، جیسے کسی خالی زمین میں عمارت قائم کرنا لیکن جو چیزیں مادی نہیں بلکہ معنوی ہوتی ہیں ان کے لیے جب قائم کرنے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد اس چیز کی محض تبلیغ کرنا نہیں بلکہ اس پر کما حقہ ، عمل در آمد کرنا ، اسے رواج دینا اور اسے عملاً نافذ کرنا ہوتا ہے ۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنی حکومت قائم کی تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس نے اپنی حکومت کی طرف دعوت دی ، بلکہ یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ملک کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیا اور حکومت کے تمام شعبوں کی ایسی تنظیم کر دی کہ ملک کا سارا انتظام اس کے احکام کے مطابق چلنے لگا ۔ اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ ملک میں عدالتیں قائم ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انصاف کرنے کے لیے منصف مقرر ہیں اور وہ مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں اور فیصلے دے رہے ہیں ، نہ یہ کہ عدل و انصاف کی خوبیاں خوب خوب بیان کی جا رہی ہیں اور لوگ ان کے قائل ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح جب قرآن مجید میں حکم دیا جاتا ہے کہ نماز قائم کرو تو اس سے مراد نماز کی دعوت و تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتی ہے کہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ نہ صرف خود ادا کرو بلکہ ایسا انتظام کرو کہ وہ اہل ایمان میں باقاعدگی کے ساتھ رائج ہو جائے ۔ مسجدیں ہوں ۔ جمعہ و جماعت کا اہتمام ہو ۔ وقت کی پابندی کے ساتھ اذانیں دی جائیں ۔ امام اور خطیب مقرر ہوں ۔ اور لوگوں کو وقت پر مسجدوں میں آنے اور نماز ادا کرنے کی عادت پڑ جائے ۔ اس تشریح کے بعد یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جب اس دین کے قائم کرنے اور قائم رکھنے کا حکم دیا گیا تو اس سے مراد صرف اتنی بات نہ تھی کہ وہ خود اس دین پر عمل کریں ، اور اتنی بات بھی نہ تھی کہ وہ دوسروں میں اس کی تبلیغ کریں تاکہ لوگ اس کا برحق ہونا تسلیم کرلیں تو اس سے آگے قدم بڑھا کر پورا کا پورا دین ان میں عملاً رائج اور نافذ کیا جائے تاکہ اس کے مطابق عمل در آمد ہونے لگے اور ہوتا رہے ۔ اس میں شک نہیں کہ دعوت و تبلیغ اس کام کا لازمی ابتدائی مرحلہ ہے جس کے بغیر دوسرا مرحلہ پیش نہیں آ سکتا ۔ لیکن ہر صاحب عقل آدمی خود دیکھ سکتا ہے کہ اس حکم میں دعوت و تبلیغ کو مقصود کی حیثیت نہیں دی گئی ہے ، بلکہ دین قائم کرنے اور قائم رکھنے کو مقصود قرار دیا گیا ہے ۔ دعوت و تبلیغ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ضرور ہے ، مگر بجائے خود مقصد نہیں ہے ، کجا کہ کوئی شخص اسے انبیاء کے مشن کا مقصد توحید قرار

    دے بیٹھے ۔اب آپ سے درخواست ہے کہ ان دلائل کے جواب دیتے ہوئے بتائیے کہ دین کو قائم کرنا انبیاء کا مقصد ہے یا نہیں قطع نظر اس سے کہ کسی نے اس کے پہلے مرحلے (دعوت و تبلیغ)تک خدمات انجام دیں یا اصلی مقصد تک پہنچنے اور انبیاء کی وساطت سے دین کو ذاتی، معاشرتی اور حکومتی سطح پر قائم کرنا ہمارا مقصد ہے یا نہیں؟

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 7, 2020 at 1:06 pm

    اور اس معاملے میں سنت الٰہیہ کا جو تصور ہے کہ اللّٰہ تعالی اپنے رسولوں کو غالب کرنے کا ذمہدار ہے مجادلہ :13 اس لئے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کو غالب کرنے کے لیے سیاسی جدوجہد کی ہے وہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ نہیں ہے بلکہ اس سنت الہیہ ہی کا نتیجہ ہے تو یہ دلیل اس لیے کمزور ہے کیونکہ سورۃ آل عمران کی آیت 183 میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ” ۔۔۔ تمہارے پاس مجھ سے پہلے بہت سے رسول آ چکے ۔۔۔ پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا” تو یہ کیسا غلبہ ہے کہ وہ قتل ہی ہو گئے اس لیے ہمیں اس آیت کی یہ تاویل کرنی پڑے گی کہ اللہ تعالی ان کو نظریاتی غلبہ عطا فرمائے گا نہیں تو دوسری صورت میں تو یہ قرآن سے بھی ٹکراتی ہے لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اسلام کو غالب کرنے کی کوشش بھی دوسرے امور کی طرح قابل اتباع ہی ہے۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 7, 2020 at 1:37 pm

    جو غامدی صاحب نے نماز کی مثال کی دلیل پیش کی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ 1۔ نماز ایک ذاتی فعل ہے اس لیے “لا اکراہ فی الدین” کے تحت اس کا کسی غیر مسلم کو پابند نہیں کر سکتے لیکن جو امور معاشرے اور حکومت سے متعلق ہیں ان کی پابندی کرنا ضروری ہے اس لیے معاشرے اور حکومت کی سطح پر دین کو ضرور قائم کیا جائے کیوں کہ اگر ہم اس معاملے میں دین کو قائم نہیں کریں گے تو غیر صالح عناصر معاشرے اور حکومت میں غیر اسلامی اور کفریہ قوانین رائج کریں گے اور کر رہے ہیں جس میں ہمارا بھی نقصان ہے اور ان کا بھی۔ تو بہتر ہے کہ ہم معاشرے اور حکومت میں امن کے ساتھ اپنا اثرورسوخ قائم کریں اور دین اسلام کو قائم کریں جس میں ہمارا بھی فائدہ ہے اور ان کا بھی

    ۔2۔ نماز کا ذاتی فعل ہونے کے باوجود اسے متحد ہو کر قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونکہ نماز صرف مسلمانوں پر ہی فرض ہے اس لیے دنیا کے تمام مسلمانوں پر اسے بزور تبلیغ اور مخصوص حالات میں قوت کے ساتھ نافذ کیا جائے گا

    یہ دلائل غامدی صاحب کے استدلال کو کمزور ثابت کرتے ہیں اور دین کو نافذ کرنے کے تصور کو قوی بناتے ہیں ۔ جزاکاللہ

  • Umer

    Moderator December 7, 2020 at 3:48 pm

    For iqamat-e-deen to be used in meanings of imposing or maintaining it on others, that third party (i.e. others) needs to be mentioned in the kalaam or there should be a qareena present within kalaam in order to take it in the meaning of imposing/maintining it on others. Otherwise, it will always be used in the meaning of maintaining it within one’s own life.

    This is just a summary, for details, please watch these videos:

    https://youtu.be/mU2GMm7g7lw

  • Umer

    Moderator December 7, 2020 at 3:49 pm

  • Umer

    Moderator December 7, 2020 at 3:49 pm

  • Umer

    Moderator December 7, 2020 at 3:52 pm

  • Umer

    Moderator December 7, 2020 at 3:52 pm

  • Umer

    Moderator December 7, 2020 at 3:52 pm

  • Umer

    Moderator December 7, 2020 at 3:53 pm

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 7, 2020 at 4:52 pm

    لیکن سنت الٰہیہ کے تصور پر میرے اعتراض کا جواب دیجیے اور میرے تمام سوالات کو مہربانی فرما کر پڑھیے میں نے یہی ثابت کیا ہے کہ یہ قرآن میں مینشن ہے اور ایک اور بات کہ جو امور حکومت سے متعلق ہیں ان کو زبردستی لوگوں پر لاگو کرنا ہی ہے اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر کسی چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا زکوٰۃ کا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا زانی کو کوڑے نہیں لگائے جا سکتے گو کہ کسی بھی قسم کا حکومتی کام نہیں کیا جا سکتا اور اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ کوشش کر کے اسلامی قوانین لوگوں پر لاگو کرتے ہیں یا دوسرے اپنا قانون بالجبر آپ پر نافذ کرتے ہیں اور فی الواقع وہی کامیاب ہیں اور آپ ناکام ہیں اور اگر کوئی کوشش کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اسکی راہ میں خلل ڈالتے ہیں ۔ جزاکاللہ

    • Umer

      Moderator December 7, 2020 at 5:13 pm

      Baraye meharbaani videos mulaihza farma lain thora waqt laga kar, aap kai zayda tar sawalaat kai jawab mil jayen gai apko. Agar daikhnay kai baad bh sawal reh jaye toh zaroor poochain.

  • Usama khan

    Member December 23, 2020 at 5:18 am

    This particular word is frequently cited by organisations ranging from Boko Harm in Africa to aL-Qaeda in Middle East. A recent interview with Maulana Wahidudin explains this issue at length:

    A must read concise book on Political Islam: https://cpsglobal.org/books/political-interpretation-islam

    Interview: https://youtu.be/wVNhLUk_YS0

You must be logged in to reply.
Login | Register