Ask Ghamidi

A Community Driven Discussion Portal
To Ask, Answer, Share And Learn

Forums Forums Sources of Islam قرآن میں تضاد

  • قرآن میں تضاد

    Posted by Muhammad Usama Habib on December 9, 2020 at 7:47 pm

    اسلام علیکم میرا ایک سوال ہے کہ ایک طرف قرآن کی سورۃ مجادلہ آیت نمبر 21 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہو کر رہیں گے تو دوسری طرف سورہ آل عمران آیت نمبر 183 میں ہے کہ ” ان رسولوں نے تمہیں یہ نشانی بھی دکھائی تھی پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا ” تو یہ کیسا غلبہ ہے کہ رسول قتل ہوگئے اور دوسری بات یہ ہے کہ کہ یہ رسول تو لامحالہ حضرت موسی کے درمیان ہی آئے ہیں کیونکہ اس آیت میں قربانی کو آگ کھانے والے واقعے کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ سب سے پہلے بائبل کے بیان کے مطابق حضرت الیاس علیہ السلام کی وفات ہوا تھا اور وہ حضرت موسی علیہ السلام سے کئی صدیوں بعد آئے تھے لہذا یہ رسول جنہوں نے یہ والی نشانی دکھائی تھی قربانی کو آگ کھانے والی وہ تو حضرت موسی علیہ السلام و مسیح علیہ السلام کے ہی درمیان آئے ہوں گےتو اس دور میں بنی اسرائیل پر دو عذاب آئے ہیں ایک آشوریوں کے ہاتھوں اور دوسرا بابلیوں کے ہاتھوں تو دونوں دفعہ انبیاء کے پیروکاروں اور انبیاء کے منکرین دونوں پر ہی ظلم و ستم ہوئے دونوں کو قتل کیا گیا اور غلام بنایا گیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد جب رومیوں نے حملہ کیا تو حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں پر ظلم و ستم ہوئے بلکہ اس کے بعد تو حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں پر یہودیوں سے زیادہ ظلم و ستم ہوئے تھے اس بارے میں وضاحت کر دیں

    Faisal Haroon replied 3 years, 12 months ago 6 Members · 17 Replies
  • 17 Replies
  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 9, 2020 at 11:35 pm

    نبی اور رسول میں فرق ہے۔ غلبہ اور کامیابی رسولوں کے ساتھ کیا گیا وعدہ ہے۔ جو قتل ہوئے وہ نبی تھے جنھیں لغوی طور پر رسول کہا گیا ہے جیسے فرشتوں کو بھی رسول کہا گیا ہے۔ اصطلاحی رسول مغلوب نہیں ہوئے۔

    تفصیل کے دیکھیے اس موضوع پر میرا آرٹیکل

    http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/qanoon-e-itmam-e-hujjat-aur-is-ke-itlaqaat-numayan-etrazaat-ka-jaiza-two

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 10, 2020 at 6:30 am

    غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان میں پیغمبر کی دعوت کے نتیجے میں ہونی والی جزا و سزا میں ایک صورت یہ بیان کی ہے کہ پیغمبر ہجرت کر جاتا ہے یا وفات پا جاتا ہے اس کے بعد منکرین حق پر عذاب آ جاتا ہے

    لیکن اس بات پر مجھے کچھ کنفیوژنز ہیں1۔ یہ کیسا غلبہ ہے کہ اللہ کا رسول وفات پا جائے اور اس کے بعد منکرین پر عذاب آ جائے گا یہ بات تو کسی بھی صاحب عقل سے ہضم نہیں ہو سکتی اگر میں کسی سے کہوں کہ میرے باپ نے اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا تھا اور اس کی صورت یہ تھی کہ میرا باپ مر گیا اور پھر اس کے دشمنوں پر عذاب آگیا تو کوئی بھی اسے دنیوی غلبہ کہنے کو تیار نہ ہوگا۔ 2۔ عام طور پر جتنے بھی رسولوں کے منکرین پر عذاب آیا ہے وہ اتمام حجت کے بعد فورا آ گیا ہے لیکن بنی اسرائیل پر حضرت مسیح علیہ السلام کی دنیا سے رخصتی کے تقریبا 37 سال بعد عذاب آیا ہے انکو اتمام حجت کے بعد بھی مہلت دی گئی اگر عذاب آنا ہی تھا تو فوراً آتا ۔ 3۔ پھر جب 70 عیسوی میں رومیوں کے ذریعہ سے بنی اسرائیل پر عذاب آیا تو اس میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے پیروکار بھی رومیوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار بنے حالانکہ اللہ ہمیشہ اہل ایمان کو عذاب سے بچا لیتا ہے بلکہ اس کے بعد تو عیسائیوں پر یہودیوں سے زیادہ ظلم و ستم ہوئے اور پھر مسلسل اڑھائی سو سال ہوتے رہے ۔

    تو یہ بتائیے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے اس دنیا سے جانے کے بعد بنی اسرائیل پر عذاب آنا اور اتمام حجت کے بعد کتنے سال تک فضول کی مہلت دی جانا اور پھر جب عذاب آیا تو اہل ایمان کا عذاب کا شکار ہونا اور مسلسل اڑھائی سو سال تک منکرین سے بھی زیادہ اس عذاب کے نتائج بھگتتے رہنا اس بات کی دلیل ہو سکتا ہے کہ رسولوں کو دنیاوی غلبہ حاصل ہوتا ہے اس صورت کو کوئی بھی صاحب عقل دنیاوی غلبہ کہنے کو تیار نہ ہوگا اس لیے ہمیں لامحالہ قرآن کی رسولوں کے غلبے والی

    آیات کی تاویل کرنا پڑے گی

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 10, 2020 at 5:40 pm

    سر میری غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دیجئے جزاکاللہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 10, 2020 at 7:47 pm

    ان تمام سوالات کا جواب میری کتاب اتمام حجت اور اس کے اطلاقات : جناب جاوید احمد غامدی کی توضیحات پر اعتراضات اور اشکالات کا جائزہ ، میں دیا گیا ہے۔ یہاں ان کی تفصیل پیش کرنا مشکل ہوگا۔ ممکن ہو تو کتاب کا مطالعہ کر لیجیے۔

    المورد لاہور سے شائع ہوئی ہے۔

  • Umer

    Moderator December 11, 2020 at 2:18 pm

    Please refer to the following threads:

    Discussion 36398

    Discussion 35579

    Discussion 31434

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 12, 2020 at 8:50 am

    میں نے آپ کے سوالات کا مختصر جواب لکھا تھا مگر معلوم نہیں کیوں یہاں پوسٹ نہ ہوسکا۔

    دوبارہ عرض کر دیتا ہوں۔ رسولوں کے غلبے کا مطلب خدا اور رسول کا غلبہ ہے نہ صرف رسول کا۔ آیت میں یہی بتایا گیا ہے۔ منکرین کی مغلوبیت اور تباہی ہی کو اللہ اور رسول کا غلبہ کہا گیا ہے۔ یہ غلبہ ہی ہے اگرچہ ہم اس سے زیادہ کچھ چاہیں تو وہ ہماری تمنا یا گمان ہے۔

    یہ تاثر درست نہیں کہ مسیح علیہ السلام کے بعد لمبا عرصہ ان کے منکرین کو کچھ نہیں کہا گیا۔ مسیح علیہ السلام کے فورا بعد ہی رومیوں کے ساتھ یہود کے تعلقات اس قدر بگڑ گئے کہ بغاوتیں ہوتی رہیں اور رومی انھیں ذلیل کرتے اور مارتے رہے اسی کا آخری نتیجہ 70 عیسوی میں ٹائیٹس کے حملے کی صورت میں نکلا۔ ہر قوم کے مستحق عذاب ہونے میں کے بعد مہلت کا کچھ عرصہ آتا ہی ہے۔

    رسول کے پیروکاروں کو خدا کے عذاب سے نجات دی جاتی ہے۔ تاکہ وہ جزا و سزا کے اس معاملے میں ممتاز نظر آئیں۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا یہ الگ معاملہ ہے۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 12, 2020 at 11:09 am

    غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان میں لکھا ہے کہ

    اِس کے ساتھ پیغمبر کو بھی بشارت دی جاتی ہے کہ نصرت خداوندی کے ظہور کا وقت آ پہنچا ۔وہ اور اُس کے ساتھی اب نجات پائیں گے اور خدا کی جس زمین پر وہ کمزور اور بے بس تھے ، وہاں اُنھیں سرفرازی حاصل ہو جائے گی

    اس کے بعد آیت لکھتے ہیں اور پھر اس کے بعد فرماتے ہیں

    قرآن میں وضاحت ہے کہ خدا کی نصرت کا یہ ظہور پیغمبر کی آنکھوں کے سامنے بھی ہو سکتا ہے اور اُس کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی د

    دونوں عبارتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نصرت خداوندی سے مراد یہ ہے کہ جس زمین پر اہل ایمان مغلوب تھے انہیں وہاں سرفرازی نصیب ہو گئی ہے قطع نظر اس سے کہ پیغمبر زندہ ہوں یا نہ ہوں گو کہ اس کا نام ہی دنیاوی غلبہ ہے

    لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کی بار جس زمین پر اہل ایمان مغلوب تھے انہیں وہاں کوئی سرفرازی نصیب نہیں ہوتی اور جزا و سزا کے معاملہ میں ممتازیت نظر آنا دور کی بات وہ بھی عذاب کے برابر کے شکار بنتے ہیں

    • Sheharbano Ali

      Member December 12, 2020 at 12:35 pm

      Can we deduce from this that Hazrat Isa (as) and his followers were an exception to this rule? To teach us and the believers, both then and now, of how things or events take place in this world. What is happening in the spiritual realm at times is more important than the apparent event itself. Which in itself is a test or a trial to bring out those who truly believed from those who were hypocrites?

  • Fatima

    Member December 12, 2020 at 11:39 am

    kya inn aayaat ko aakhirat ki kamyabi ke lihaaz se nahi deekha ja sakta kyunki dunyavi kamyabi to kai nabiyo ko nahi mili to iska matlab ke vo nakaam hogaye.quraan me allah rabulizzat farmaty hai ki in kafiron ko itne daulat bhi mil jaye ki unke gharo ki sedhiya bhi soone or chandi ki hojaye to tum unki in cheezo se tangi mahsuus mat karna or na kamzon par jana.quraan me kai jagah hai ke aakhirat ki kamyabi hi asal kamyabi hai.

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 13, 2020 at 7:56 am

    یہ ایک دوسرا قانون ہے جو ذریت ابراہیم کے ساتھ کیا گیا جسے آپ پیغمبروں کے ساتھ ملا کر دیکھ رہے ہیں ۔ انبیا کے ساتھیوں کو غلبہ ملنے کا کوئی قانون بیان نہیں ہوا بلکہ ذریت ابراہیم کو درست ایمان و عمل برتنے پر سرفرازی کا اعلان ہوا ہے۔ مسیح علیہ السلام کے معاملے میں بنی اسرائیل تھے جنھیں مسیح علیہ السلام کی بات پر ایمان لے آنے اور ان کی اطاعت کی بدولت سرفرازی ملنا تھی، مگر انھوں نے نافرمانی کر دی اور ذلت کے حق دار ٹھہرے۔ یعنی جنھین سرفرازی ملنا تھی انھوں نے خود کو اس کا مستحق نہ بنایا۔ ایسا کوئی قانون نہیں پیغمبروں کے مومنین کو سرفرازی بھی ملے گی۔ ان کے لیے صرف عذاب سے نجات کی خبر دی گئی ہے۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 13, 2020 at 2:02 pm

    1۔ سر معذرت سے گزارش ہے کہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان کے باب پیغمبر کی دعوت میں اس قانون کا اطلاق تمام پیغمبروں پر کیا ہے کہ جس سرزمین پر پیغمبر اور اس کے ساتھی مغلوب تھے وہاں انہیں سرفرازی نصیب ہوگی قطع نظر اس سے کہ پیغمبر ان میں زندہ موجود ہو یا نہ ہو ( حالانکہ اس بات کو بھی رسول کا دنیاوی غلبہ کہنے سے عقل کتراتی ہے)۔ 2۔ ذریت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی کا اعلان ہے کہ اللہ ان کو زمین والوں کا پیشوا بنائے گا اور ظالم اس سے مستثنی ہیں اس سے مراد نبوت ہے اور دین و دنیا کی راہنمائی ہے اگر اس سے مراد یہ لیا جائے کہ کسی سرزمین میں وہ غالب ہوں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خود بھی کسی سرزمین پر غلبہ نہیں رکھتے تھے اور اگر بالفرض اس سے مراد کسی سرزمین میں غالب ہونا ہی لیا جائے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے منکرین وہ ظالم تھے جن کے ساتھ اللہ کا وعدہ نہیں تھا اور حضرت مسیح علیہ السلام کے بنی اسرائیلی پیروکار وہ مومن تھے جن کے ساتھ اللہ کا وعدہ تھا۔ 3۔ آپ نے خود فرمایا تھا کہ اللہ تعالی رسول کے پیروکاروں کو عذاب سے بچا لیتا ہے اور ان کی ممتازیت نمایاں نظر آتی ہے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے معاملے میں ان کے پیروکار برابر عذاب کے شکار بنے ہیں اور اہل ایمان اور منکرین کے درمیان کوئی ممتازیت نظر نہیں آتی۔ جزاکاللہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 14, 2020 at 9:54 am

    گزارش ہے کہ ذریت ابراہیم کے ساتھ جو قانون ہے اس کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ ذریت ابراہیم میں صالحیت غالب ہوگی تو انھیں غلبہ ملے گا ورنہ ان کی اجتماعی اخلاقی زبوں حالی کے باوجود ان میں اعلی درجے کے نیک لوگ موجود تھے۔ قومی معاملات کے فیصلے چند افراد کے کردار پر نہیں قومی کردار کے لحاظ سے کیے جاتے ہیں۔

    اضافہ طور پر عرض ہے ابراہیم ایک طاقت ور حکمران کی حیثیت رکھتے تھے اور انھوں نے اپنے دور کے بادشاہوں سے جنگ بھی کی اور انھیں شکست بھی دی۔ قانون اتمام حجت اور ذریت ابراہیم سے متعلق یہ سوال اکثر اٹھائے جاتے ہیں اسی لیے میں نے ان سب کو اپنی کتاب میں جمع کر کے تفصیلی جواب دے دیا ہے۔ یہاں وہ سب دہرانا ممکن ہے اور نہ مفید کہ دلائل کی تفصیل بیان کرنا مشکل ہے۔

    ۔ آپ اگر اس قانون کو وسیع تناظر اور جزئیات میں سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ تجویز کرتا ہوں۔ پھر بھی کوئی سوال ہو تو میں حاضر ہوں۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 15, 2020 at 4:18 pm

    الف۔ سر معذرت سے گزارش ہے کہ غامدی صاحب نے اپنی کتاب میزان کے باب پیغمبر کی دعوت میں اس قانون کا اطلاق تمام پیغمبروں پر کیا ہے کہ جس سرزمین پر پیغمبر اور اس کے ساتھی مغلوب تھے وہاں انہیں سرفرازی نصیب ہوگی قطع نظر اس سے کہ پیغمبر ان میں زندہ موجود ہو یا نہ ہو ( حالانکہ اس بات کو بھی رسول کا دنیاوی غلبہ کہنے سے عقل کتراتی ہے۔)۔

    ب۔ آپ نے خود فرمایا تھا کہ اللہ تعالی رسول کے پیروکاروں کو عذاب سے بچا لیتا ہے اور ان کی ممتازیت نمایاں نظر آتی ہے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے معاملے میں ان کے پیروکار برابر عذاب کے شکار بنے ہیں اور اہل ایمان اور منکرین کے درمیان کوئی ممتازیت نظر نہیں آتی

    برائے مہربانی ان دو سوالوں کے جواب عنایت فرمائیں۔

    pdf اگر آپ کی کتاب کا

    ہے تو وہ بھی بھیج دیجئے ۔

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 18, 2020 at 6:21 pm

    سر برائے مہربانی میرے ان دو سوالوں کے جواب دے دیجئے

    پہلے سوال کا جواب ہاں۔/۔نفی پر منحصر ہے

    دوسرے کا چند سطروں پر

    جزاکاللہ

  • Muhammad Usama Habib

    Member December 21, 2020 at 12:57 pm

    سر برائے مہربانی میرے ان دو سوالوں کے جواب دے دیجئے

    پہلے سوال کا جواب ہاں۔/۔نفی پر منحصر ہے

    دوسرے کا چند سطروں پر

    جزاکاللہ

  • Dr. Irfan Shahzad

    Scholar December 24, 2020 at 4:03 am

    گزارش ہے کہ ان دونوں سوالوں کا جواب اوپر پوسٹ میں دے دیا گیا ہے۔ غلبے اور نجات سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو خدا کا منشا ہے۔ ہم جیسے چاہتے ہیں معاملہ بعض اوقات ویسا نہیں ہوتا۔

  • Faisal Haroon

    Moderator December 30, 2020 at 3:44 pm

    In January 2021 we’re also starting a comprehensive course called “The Definitive Key To Understanding The Quran” where Dr. Irfan Shehzad will cover all aspects of the law of itmam-e-hujjah in ample detail.

    Course Catalog | Ghamidi.org

You must be logged in to reply.
Login | Register