-
Hitting Kids For Not Praying Namaz
“بچوں کو نماز نہ پڑھنے پر مارنا،
(ایک روایت سے استدلال)
حدیث کی بعض کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اگر بچے دس سال کی عمر تک نماز نہ ادا کریں تو انھیں مارا جائے گا،تاکہ وہ نماز ادا کرنا شروع کردیں۔
اس روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم ابناء عشر سنين، وفرقوا بينهم في المضاجع”.
(سنن ابو داود ،رقم 495)
“عمرو بن شعب اپنے والد سے اور وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“۔
پورے ذخیرئہ حدیث میں یہ روایت صرف دو صحابہ سے منقول ہے:
۱۔سبرة بن معبد الجهني۔
۲۔عبد اللہ عمرو۔
پہلے صحابی ،سبرہ بن معبد الجھنی سے اِس ضمن میں جو بھی روایات نقل ہوئی ہیں، محدثین کے نزدیک وہ سب کی سب “ضعیف” ہیں۔ اور ان کے ضعف کی بنیادی وجہ ایک راوی “الربيع الجهني” کا ہونا ہے۔ علمائے حدیث اس روایت پر جو حکم لگاتے ہیں، وہ یہ ہے:
“إسناد ضعيف فيه عبد الملك بن الربيع الجهني وهو ضعيف الحديث”۔
اِس سلسلے کی روایات مسند احمد،ابو داؤد اور سنن ترمذی وغیرہ میں نقل ہوئی ہیں۔
اس کے بعد دوسرے صحابی عبد اللہ بن عمرو ہیں۔ ان کی نسبت سے یہ روایت سب سے پہلے المدونۃ الکبری،مالک میں نقل ہوئی ہے:
اس روایت کے الفاظ ہیں:
وَقَالَ مَالِكٌ: تُؤْمَرُ الصِّبْيَانُ بِالصَّلَاةِ إِذَا أَثْغَرُوا .قَالَ سَحْنُونٌ، عن ابْنِ وَهْبٍ، عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَسَبْرَةَ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: ” مُرُوا الصِّبْيَانَ بِالصَّلَاةِ لِسَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا لِعَشْرِ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ
(المدونۃ الکبری، [1 : 132] )
مالک کہتے ہیں:
“بچوں کے جب دودھ کے دانت گر جائیں تو انھیں نماز کا حکم دیں،سحنون ابن وھب سے اور وہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص اورسبرہ الجھنی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“۔
یہاں اس روایت میں دونوں صحابہ کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے گویا واقعہ ایک ہی ہے لیکن اس روایت میں مسئلہ یہ کہ اسے ایک راوی “ابن وھب” بیان کررہے ہیں جن کی پیدایش ہی 125 ھجری کی ہے۔جبکہ جن صحابہ سے وہ نقل کر رہے ہیں ان دونوں کا انتقال ہی 65 ہجری سے پہلے ہوچکا تھا۔
گویا یہ بھی ایک منقطع روایت ہے اور ناقابل قبول ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام مالک نے خود بھی اسے اپنی موطا کا حصہ نہیں بنایا۔۔
اس کے بعد
عبداللہ بن عمرو سے سب سے پہلے یہ روایت حدیث کی جس کتاب میں سامنے آئی وہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ۔اس روایت کے الفاظ ہیں:
عن دَاوُدَ بْنِ سَوَّارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ: ” مُرُوا صِبْيَانَكُمْ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغُوا سَبْعًا وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا إِذَا بَلَغُوا عَشْرًا وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ “
(مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ،3394)
داود بن سوار عمر بن شعیب سے وہ والد سے اور وہ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو“۔
دراصل روایت کا یہی وہ سلسلہ سند ہے جسے بعد کی کتابوں میں بھی اپنایا گیا اور بعض علما نے اسے “حسن لغیرہ” قرار دے کر قبول کرلیا اور یوں یہ حدیث بہت شہرت پا گئی۔اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قابل اطمینان بات تصور کر لیا گیا۔ علماء بالعموم اس روایت کا یہ حکم بیان کرتے ہیں:
إسناده حسن في المتابعات والشواهد رجاله ثقات وصدوقيين عدا سوار بن داود المزني
لیکن ہماری رائے میں اس سلسلے کی روایات پر دوقت نظر سے غور کیا جائے تو چند مسائل اور سوالات پیدا ہوتے ہیں:
پہلا یہ کہ ان تمام روایت میں “سَوَّارُ بْنُ دَاوُدَ ” موجود ہیں جن کے بارے میں متعدد علمائے جرح و تعدیل مطمئن نہیں ہیں۔مثلا: حافظ ذہبی نے ان پر “ضعف” کا حکم لگایا ہے.اسی طرح “تقریب التھذیب” کے مصنف کی رائے میں بھی قابل اعتماد نہیں ہیں۔ان کے بقول:
“ضعيف يعتبر به ، ولم يحسن الرأي فيه سوى أحمد”
لہذا تنہا صرف اسی ایک راوی کی بنا پر عبد اللہ بن عمرو سے مروی اس سلسلے کی تمام روایات “ضعیف” قرار دی جا سکتی ہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بہت سے معاصر علمائے حدیث نے بھی اس روایت کو سندا قبول نہیں کیا۔
دوسرا سوال اس سلسلے کی روایات میں یہ اٹھتا ہے کہ “عمر بن شعیب” اپنے والد کی نسبت سے خود اپنے ہی دادا سے روایت کررہے ہیں یا اُن کے والد اپنے دادا سے روایت کر رہے ہیں (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ،)روایت میں اس کی کوئی صراحت نقل نہیں ہوئی۔چنانچہ اگر پہلی صورت ہے تو روایت میں ارسال ہوگا اور دوسری ہے تو انقطاع ہوگا۔
تیسری بات یہ کہ خود مصنف ابن ابی شیبہ ،جہاں یہ روایت سب سے پہلے نقل ہوئی وہیں ابن ابی شیبہ نے اِس پوری بات کو ایک تابعی کے قول کے طور پر الگ سے بھی نقل کیا ہے،جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سرے سے حدیث تھی ہی نہیں بلکہ ایک تابعی کا قول تھا…چنانچہ مصنف ہی میں ہے:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: ” يُؤْمَرُ الصَّبِيُّ بِهَا إِذَا بَلَغَ السَّبْعَ وَيُضْرَبُ عَلَيْهَا إِذَا بَلَغَ عَشْرًا
(مصنف ابن ابی شیبہ،رقم3402)
وکہع کہتے ہیں کہ سفیان نے ابی رجا سے اور انھوں نے مکحول سے سنا کہ جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو۔
لہذا سند میں ضعف اور درجہ بالا علل، دونوں ہی کی بنا پر یہ روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
یہ غالبا کسی صحابی کا اثر یا تابعی کی اجتہادی رائے تھی ، جو ایسے نقل ہوگئی ہے۔اِس بات کی تائید مسند بزار کی ایک اور روایت سے بھی ہوتی ہے،علم حدیث کے ایک بڑے عالم امام شوکانی نے اپنی کتاب “نیل الاوطار” میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا کہ ایک دوسری روایت میں صراحت ہے کہ یہ پوری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک کاغذ پر لکھی ہوئی ملی تھی جس میں رسول اللہ کی نسبت کے بغیر ہی کسی شخص کے الفاظ لکھے تھے کہ اس کے بقول غالبا نو سال کی عمر میں مارا جا سکتا ہے۔
روایت یہ ہے:
عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَجَدْنَا صَحِيفَةً فِي قِرَابِ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَعْدَ، وَفَاتِهِ فِيهَا مَكْتُوبٌ: ” بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، فَرِّقُوا بَيْنَ مَضَاجِعِ الإِخْوَةِ وَالأَخَوَاتِ لِسَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوا أَبْنَاءَكُمْ عَلَى الصَّلاةَ إِذَا بَلَغُوا أَظُنُّهُ تِسْعًا۔
(مسند بزار،رقم 3332)
عبید اللہ بن ابی رافع اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ کی وفات کے بعد تلوار کے پاس ایک کاغذ لکھا ملا تھا جس پر لکھا تھا:”بسم اللہ الرحمن الرحیم:بہن بھائیوں کے بستر سات سال کی عمر میں الگ کردواور بچوں کو میرے خیال کے مطابق نو سال کی عمر نماز نہ ادا کرنے پر مارو۔
خلاصہ:
اس روایت کو قبول کر کے بعض علما نماز نہ پڑھنے پر مارنے کو محض تربیتی تادیب کے معنی میں مراد لیتے ہیں لیکن ہماری طالب علمانہ رائے میں اس روایت کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتی اور یہ ایک “ضعیف” روایت ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے بخاری اور مسلم تک نے اپنے انتخاب میں اس حدیث کو قبول نہیں کیا۔
اس روایت کی سند پر کلام کے ساتھ ساتھ یہ علم و عقل کے مسلمات اور دین کے مجموعی مزاج سے بھی بظاہر متصادم نظر آتی ہے۔جب شریعت میں نماز کا مکلف ہی بالغ فرد ہے تو دس سال کی عمر میں نماز نہ ادا کرنے پر مارنا ناقابل فہم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نفسیات کے ماہرہن بھی یہ بتا سکتے ہیں کہ بچپن کی یہ سختی کیسے انسانوں کے مزاج اور مذہب سے تعلق پر اثر انداز ہوتی ہے۔جبکہ دوسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی کریم النفس شخصیت جنھوں نے پوری زندگی دین کو نرمی، ملائمت اور استدلال سے سمجھایا وہ کیسے علی الاطلاق ایسی ہدایت کر سکتے ہیں جو جسمانی مار، نفسیاتی دباو اور عبادت جیسے شعوری عمل کو زبردستی ادا کروانے کی ترغیب بن جائے۔۔۔۔
واللہ اعلم ۔۔۔۔
محمد حسن الیاس۔
(2 مارچ 2021)
Sponsor Ask Ghamidi
The discussion "Hitting Kids For Not Praying Namaz" is closed to new replies.