محمد حسن الیاس
گزشتہ کئی ماہ حوروں سے متعلق احادیث کی تحقیق میں گزرے.
مسلم تہذیبی روایت میں یہ احادیث جمعے کے خطبوں سے لے کر، واعظین کی پند و نصیحت تک، مذہبی بحثوں اور علما کی کتابوں میں ایمان کی ترغیب اور مسلمانوں کے لیے انعام کی خوشخبری کا موضوع بنتی ہیں۔ ہمارے دعوتی لٹريچر میں اس کا اثر نمایاں ہوا بلکہ اعمال کی پوری کوشش ہی گویا جنت میں خوبرو عورتوں کے حصول سے متعلق بوگئ۔ اسی پہلو نے مذہب جیسی سنجیدہ چیز کو مزاح کا موضوع بنا ڈالا چنانچہ ہماری شاعری میں بھی یہ ردعمل ظابر بوا:
تیار تھے نماز کو بم سن کے ذکر حور
جلوه بتوں کا دیکھ کرنیت بدل گئی
تحقیق سے سامنے آیا کہ پورے ذخیرہ حديث میں اس موضوع پر کل ملا کر لگ بهگ پانچ سو کی قريب طرق ہیں۔ان میں سے ایک ایک طریق کی سند اور متن پر غور کے نتیجے میں چند باتیں واضح ہوئیں: 1. حوروں سے متعلق احادیث میں سے 99% احادیت ضعيف ہیں۔ ان ضعیف روایات کا بڑا حصہ موضوع اور من گهڑت روایات پر مشتمل ہے۔ 2. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری دعوتی زندگی میں بس دو یا تین مواقع پر جنت کی عورتوں کی صفات کو ضمنا بیان کیا اور ان روايات میں بهی کسی ایسے پہلو کا شائبہ تک نہیں جو ہمارے مذہبی حلقوں میں بیان کیے جاتے ہیں۔ 3. حور سے متعلق سندا قابلِ قبول 1% روايات بهی حور کے کسی علحيده مخلوق ہونے کی کوئی تائید نہیں کرتیں بلکہ بہت لطیف انداز میں جنت میں عورتوں پر خدا کی عنايات کا اشاره کرتی ہیں۔
ہمارے جلیل القدر محدثین نے اس معاملے میں بغیر کسی تردد کے صحت کے معیارات کو اپلائی کیا، اور پوری دیانت داری اور سختی کے ساتھ ان تمام گپوں پر ضعیف اور موضوع کا حكم لگایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی نسبت کے ثبوت سے صاف انکار کیا۔